ممتابنرجی کی ڈاکٹرس تک رسائی

   

راہوں کے ہیر پھیر سے واقف تو ہم نہ تھے
کچھ ٹھوکروں نے گرنے سے ہم کو بچالیا
ممتابنرجی کی ڈاکٹرس تک رسائی
کولکتہ ڈاکٹرس کی عصمت ریزی اور قتل کے واقعہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کو حل کرنے کیلئے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی نے ایک مثال قائم کرتے ہوئے احتجاجی ڈاکٹرس کے کیمپ تک پہونچ کر ڈاکٹرس کو بات چیت کی پیشکش کی ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ کام پر رجوع ہوجائیں اور ان ے مطالبات پر غور کرنے کیلئے حکومت تیار ہے ۔ ڈاکٹرس ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے انہوں نے جو شرائط رکھی ہے وہ بات چیت کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ڈاکٹرس نے پانچ شرائط رکھی تھیں اور حکومت نے تین شرائط پر اتفاق بھی کرلیا ہے جبکہ ایک اصل شرط یہ ہے کہ ڈاکٹرس چاہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ بات چیت چیف منسٹر ممتا بنرجی کی موجودگی میں ہو اور بات چیت کا راست ٹیلیکاسٹ کیا جائے ۔ ڈاکٹرس کے مسئلہ کی سماعت سپریم کورٹ میں چل رہی ہے اور اس کے پیش نظر حکومت کی جانب سے راست ٹیلیکاسٹ کی شرط تسلیم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹرس اپنے مطالبات پر اٹل ہیں۔ حکومت کو یہ بھی شبہ ہے کہ ڈاکٹرس کا احتجاج در اصل سیاست اغراض و مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹرس اس بات کو تسلیم کرنے کوتیار نہیںہیں تاہم یہ ضرور شبہات ملک بھر کے عوام میں پیدا ہونے لگے ہیں کہ ڈاکٹرس کے احتجاج کا سیاسی استحصال کے جا رہا ہے اور ڈاکٹرس سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرس کے اپنے مطالبات واجبی ہوسکتے ہیں اور حکومت کے ساتھ شرائط پیش کرنا ان کا اپنا حق ہے جس کو خود چیف منسٹر ممتابنرجی نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ ڈاکٹرس اس بات کو فراموش کر رہے ہیں کہ ان کے مطالابات کی یکسوئی اور بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کو ختم کرنا بھی ریاستی حکومت کے ہی اختیار میں ہے اور اگر وہ اسی کے ساتھ بات چیت میں پس و پیش کا شکار ہونگے اور حیلے بہانے کرتے ہوئے بات چیت سے گریز کرینگے تو پھر مسئلہ کی یکسوئی ممکن نہیں ہو پائے گی ۔ ڈاکٹرس کو سپریم کورٹ سے ہدایت دی گئی تھی کہ وہ 10 ستمبر تک کام پر واپس ہوجائیں لیکن انہوںنے ایسا نہیں کیا ہے ۔ ایسے میںعدالتوں کی ہمدردی سے بھی یہ ڈاکٹرس محروم ہوسکتے ہیں اور اس کا انہیں اندازہ کرنا ہوگا ۔
مغربی بنگال کی ممتا بنرجی حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ وہ ڈاکٹرس کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ وہ اس مسئلہ پر خاطیوں کو بچانا چاہتی ہیں اور ڈاکٹرس کے خلاف سخت رویہ اختیار کر رہی ہیں۔ ممتا بنرجی نے دو دن قبل بھی سیکریٹریٹ میں بات چیت کیلئے ڈاکٹرس کا دو گھنٹے تک تنہا بیٹھ کر انتظار کیا تھا ۔ ڈاکٹرس لائیو ٹیلیکاسٹ کی شرط عائد کرتے ہوئے سیکریٹریٹ سے واپس ہوگئے اور چیف منسٹر سے ملاقات تک نہیں کی تھی ۔و ہ احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ممتابنرجی نے ایک حقیقی عوامی ہمدرد لیڈر کے جذبہ کا اظہار کرتے ہوئے عہدہ کی انانیت کو بالائے طاق رکھ دیا اور خود احتجاجی ڈاکٹرس کے کیمپ تک پہونچ گئیں۔ ان کے خلاف اس موقع پر نعرہ بازی بھی کی گئی ۔ چیف منسٹر ممتا بنرجی اس پر برہم نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے ڈاکٹرس کے ساتھ انتہائی نرم رویہ اختیار کیا ۔ ان سے اظہار ہمدردی کیا ۔ ان کے مطالبات کو واجبی قرار دے ۔ ان کے احتجاج کے حق کو تسلیم کے ۔ یہ بھی واضح کردے کہ وہ ایک چیف منسٹر کی حیثیت سے بات چیت کرنے نہیں آئی ہیں بلکہ ان کی بڑی بہن کی طرح ان کے مسائل کو سمجھنے کیلئے آئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ڈاکٹرس پر زور دیا کہ وہ کام پر واپس آجائیں کیونکہ علاج کی سہولت نہ ملنے سے دواخانوں میںمریضوں کی بھی اموات ہو رہی ہیں اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ چیف منسٹر نے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ مسئلہ کی یکسوئی کرنے اور صورتحال کا حل دریافت کرنے کی ایک آخری کوشش ہے ۔ ممتابنرجی کا یہ اقدام ان کی انسانیت کو ظاہر کرتا ہے اور ایک اچھی علامت ہے ۔
احتجاجی ڈاکٹرس کو بھی یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ممتابنرجی کوئی قانونی سہارا لے کر ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے انہیں موقع دے رہی ہیں کہ وہ بات چیت کیلئے آگے آئیں اور حکومت ان کے مطالبات پر غور کرنے تیار ہے ۔ انہوں نے ڈاکٹرس کو کم پر واپسی کی جو تاکید کی ہے اس کو قبول کیا جانا چاہئے ۔ ڈاکٹرس کو جہاں اپنے مطالبات اور تشویش کو ظاہر کرنے کا حق ہے وہیںان پر عوامی صحت کی دیکھ بھال کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اس ذمہ داری سے احتجاج کے نام پر دوری اختیار نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے علاوہ عدالتی احکام کی عدم تعمیل کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکومت پر اثر انداز ہوتے ہوئے بات چیت کی میز تک انہیں واپس آجانا چاہئے تاکہ ان کی تشویش کو دور کرتے ہوئے عوامی صحت جیسے ہام مسئلہ کو بھی بہتر انداز میں حل کیا جاسکے ۔
علاقائی جذبات کو ہوا نہ دی جائے
تلنگانہ میں علاقائی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے سیاست کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ریاست کا قیام علاقائی بنیادوںپر عمل میں آیا ہے تاہم ریاست میںپڑوسی آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے بھی لاکھوں افراد ہیں۔ کسی بھی علاقہ یا ریاست سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف اشتعال انگیز ریمارکس کرتے ہوئے سیاست کرنے کی کوششیں مذموم کہی جاسکتی ہیں اور ایسی کوششوں سے سیاسی قائدین کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ تلنگانہ خاص طور پر ملک میں تیزی سے ابھرتی ہوئی ریاست ہے ۔ اس کو ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن کرنے میں سب کو اپنا رول نبھانا چاہئے ۔ علاقائی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے سیاست کی جائے تو نظم و قانون کا مسئلہ پیدا ہوگا اور اس کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔