ممتاز صحافی طارق غازی کا کنیڈا میں انتقال

   

تاریخ کا ایک بولتا انسائیکلو پیڈیا خاموش ہوگیا

ریاض۔/14 اپریل، ( کے این واصف) ممتاز صحافی طارق غازی (سابق منیجنگ ایڈیٹر ‘‘سعودی گزٹ’’) ہفتہ کی شام ٹورانٹو، کینڈا میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی عمر 79 سال تھی۔ انھوں نے انگریزی روزنامہ ’ سعودی گزٹ‘ (جدہ) مین 28 سال خدمات انجام دیں۔ 1945 میں یوپی کے شہر بجنور میں پیدا ہوئے طارق غازی کا تعلق آزادی ہند کے مجاہدین کے خاندان سے تھا۔ ان کا مکمل نام محمد طارق الانصاری غازی تھا۔ ان کے والد حامد الانصاری بھی ایک مجاہد آزادی اور صحافی تھے۔ وہ بمبئی سے شائع ہونے والے اخبار ’’جمہوریت ‘‘کے ایڈیٹر تھے۔ طارق غازی کوئی دس سال کی عمر میں کلکتہ سے اپنے والد کے ساتھ بمبئی آبسے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم بمبئی ہی میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم علیگڈھ مسلم یونیورسٹی میںہوئی۔ وہ 1979 میں جدہ، سعودی عرب منتقل ہوئے اور سعودی گزٹ سے منسلک ہوئے جہاں انھوں نے 28 سال خدمات انجام دیں۔ قلم کو اپنا ایمان سمجھنے والے صحافی ایک وضع دار شاعر اور کئی انگریزی اور اردو کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ وہ جدہ کے ادبی و سماجی حلقوں کی ایک معروف و مقبول شخصیت تھے۔ وہ جدہ کی ادبی محافل میں پابندی سے شریک رہتے۔ طارق غازی نے بمبئی میں اپنے ایام شباب ہی میں شعر کہنا شروع کیا تھا۔ وہ ایک دینی مزاج آدمی تھے مگر اس دور کے نامور ترقی پسند شعراء علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، جانثار اختر، اختر الایمان، کرشن چندر وغیرہ کے قریبی احباب میں گنے جاتے تھے۔ وہ سعودی گزٹ سے سبکدوش ہوکر سن 2003 میں کینڈا منتقل ہوئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ کینڈا سے بھی وہ ایک عرصہ تک ہندوستانی اخبارات کے لئے مسلسل بنیاد پر کالمس لکھا کرتے تھے۔ اور دم آخر تک تصنیف و تالیف سے جڑے رہے۔ طارق غازی کے سانحہ ارتحال پر منیجنگ ایڈیٹر روز نامہ عرب نیوز سراج وہاب نے اپنے تعزیتی پیام میں کہا کہ طارق غازی کا جہان فانی سے کوچ کرجانا انگریزی و اردو صحافت اور ادب کا ایک بڑا نقصان ہے۔ سراج وہاب نے کہا کہ طارق غازی اسلامی تاریخ، دور عثمانیہ اور آزادی ہند کی تاریخ کا ایک بولتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ انھوں نے کہا کہ آج تاریخ ہند جو مسخ کردی گئی یا تاریخ کے فراموش کردہ باب طارق غازی کی زبان کی نوک پر تھے۔ انھوں نے کہا کہ جدہ میں طارق غازی اور ان کے رفقاء کا دور ایک سنہری دور تھا۔ جدہ میں طارق غازی کے دیرینہ رفیق رہے عبد الغفور دانش نے طارق غازی کے ساتھ گزارے یاد گار لمحوں اور ان کی زندگی پر فوری طور پر اپنے خیالات قلم بند کیے اور بطور خراج عقیدت ان خیالات کو سوشیل میڈیا پر جاری کیا۔ طارق غازی سے راقم نے پہلی ملاقات 1992 میں حیدرآباد میں کی تھی۔ میں اس زمانے میں روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ سے منسلک تھا، انہی کی ہمت افزائی پر میں سعودی عرب منتقل ہوا۔ یہاں آکر میں نے ایک آرکیٹکچرل میگزین میں ملازمت حاصل کی اور تادم تحریر ریاض سعودی عرب میں مقیم ہوں۔