ممتا بنرجی کی حکمت عملی میںتبدیلی

   

چیف منسٹر مغربی بنگال و ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی نے اپوزیشن جماعتوںمیں وسیع تر اتحاد کے امکانات کو ختم کرتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میںتنہا مقابلہ کریں گی ۔ ان کی پارٹی کسی اتحاد کا حصہ نہیںرہے گی ۔ حالانکہ ممتابنرجی اپوزیشن اتحاد کو یقینی بنانے کیلئے کوشش کر رہی تھیں۔ ان کا موقف تھا کہ کانگریس اور بی جے پی سے ہٹ کر علیحدہ محاذ بنایا جانا چاہئے ۔اس سلسلہ میں ان کی چیف منسٹر تلنگانہ و بی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راو سے بھی بات چیت ہوئی تھی ۔ چندر شیکھر راو بھی کانگریس اور بی جے پی دونوںہی جماعتوںسے ہٹ کر اتحاد قائم کرنے کی بات کر رہے تھے ۔ بی آر ایس سربراہ نے تو اپنی پارٹی کو قومی جماعت میں تبدیل بھی کرلیا ہے اور وہ بی جے پی وہ کانگریس کے خلاف سرگرم ہوگئے ہیں۔ وہ کئی علاقائی جماعتوںکو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ممتابنرجی نے ایسا لگتا ہے کہ اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بنگال کے ایک حلقہ میںہوئے ضمنی انتخابات میں شکست ‘ تریپورہ میںپارٹی کی ناقص کارکردگی اور دیگر امور کو ذہن میںرکھتے ہوئے ممتابنرجی نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔وہ اب کسی بھی اتحاد میںشامل ہونے کا منصوبہ نہیں رکھتیں اور انتخابات کے بعد کی صورتحال میں وہ کوئی فیصلہ کرسکتی ہیں۔ تاہم ممتابنرجی کے اس فیصلے سے اپوزیشن اتحاد کی کوششوںکو نقصان ہوا ہے ۔ ممتابنرجی اس ریاست کی چیف منسٹر ہیں جہاں سے لوک سبھا کیلئے تیسرے سب سے زیادہ ارکان بھیجے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ ارکان لوک سبھا کو اترپردیش سے پھر دوسرے نمبر پر مہاراشٹرا سے اور تیسرے نمبرپر مغربی بنگال سے بھیجے جاتے ہیں۔ بنگال میں اگر کچھ جماعتوںمیںاتحاد ہوتا تو یہاں کامیابی کے تناسب میںاضافہ کی گنجائش بھی ہوتی۔ تاہم ممتابنرجی بھی ایسا لگتا ہے کہ اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد سے دور رہنا چاہتی ہیں۔ وہ انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے صورتحال کے مطابق ہی کوئی فیصلہ کریں گی ۔ تاہم انتخابی مہم کے دوران ان کے اس فیصلے کے اثرات اپوزیشن جماعتوںپر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
اکثر و بیشتریہ کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کی صفوںمیں اتحاد کی راہ میں اصل رکاوٹ علاقائی جماعتوںکی اپنی مجبوریاں ہیں ۔ یہ جماعتیں کانگریس کے ساتھ جاتے ہوئے اپنی علیحدہ شناخت کو کھونے سے ڈرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے جو موجودہ سیاسی حالات ہیں ان میں تمام جماعتوں کو اگر اپنی شناخت کھونے کا خطرہ کسی سے لاحق ہے تو وہ کانگریس نہیں بلکہ بی جے پی ہے ۔ بی جے پی نے اپنے اقتدار میں اپنی ہی کئی حلیفوںکو عملا ختم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔شرومنی اکالی دل ‘ تلگودیشم پارٹی ‘ ٹی آر ایس ‘ شیوسینا اور دوسری ایسی جماعتیں ہیں جن کے ساتھ بی جے پی کے باضابطہ مراسم تھے یا پھر بالواسطہ مفاہمت رہی تھی ۔ بہار میںنتیش کمار بھی بی جے پی کے ساتھ تھے ۔ اب یہ تمام اپنے اپنے حاشیہ پر کردئے گئے ہیں۔ نتیش کمار کو گذشتہ بہار اسمبلی انتخابات میں ہی حاشیہ پر کردیا گیا ۔ بحالت مجبوری انہیں چیف منسٹر بنایا گیا تھا ۔ مہاراشٹرا میں ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا سے اتحاد ختم کیا گیا ۔ پھر ان کی حکومت کو ان کی ہی پارٹی میںانحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے شکست دیدی گئی ۔ تلگودیشم کا صفایا کرنے کیلئے وائی ایس آر سی پی کا استعمال کیا گیا ۔ پنجاب میں اکالی دل بھی بی جے پی سے دور ہے ۔ ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں جو علاقائی جماعتیں بی جے پی کے ساتھ ہیں انہیں بھی کسی مناسب موقع پر حاشیہ پر کرنے سے گریز نہیں کیا جائیگا ۔ بی جے پی ملک میں کانگریس ہی نہیں بلکہ کسی بھی اپوزیشن کو برداشت کرنے تیار نہیںہے ۔
علاقائی جماعتیں اپنی اپنی ریاست میں عوامی تائید کے بل پر اب بھی کام کر رہی ہیں۔ تاہم یکے بعد دیگرے سبھی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور اس کے آثار پہلے سے دکھائی بھی دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں علاقائی جماعتوں کو حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر بی جے پی کو ان جماعتوں کو نشانہ بنانے کا موقع مل گیا تو پھر انہیں دوبارہ مجتمع ہونے میں مشکل پیش آئیں گی ۔ ایسے میں کانگریس کا ساتھ لینے سے خوف محسوس کرنے کی بجائے بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے نکتہ پر توجہ کرتے ہوئے سبھی جماعتوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔