مملکت فلسطین کی نفی

   

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبینِ نیاز میں
اسرائیل جس عزم اور منصوبے پر کئی دہوں سے عمل کر رہا تھا اب اس کا کھل کر اظہار بھی کرنے لگا ہے ۔ اسرائیل ہمیشہ سے مملکت فلسطین کے قیام کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اس کے خلاف اپنے طور پر اقدامات کا بھی سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا ۔ حالانکہ ساری دنیا مسئلہ فلسطین کو حل کرنے دو مملکت کے نظریہ کی حمایت کرتی رہی تھی اور اسرائیل پر بھی زور دیا جاتا رہا تھا کہ وہ مملکت فلسطین کے وجود کو یقینی بنائے ۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی نوآبادیات کے قیام اور تعمیر سے گریز کیا جائے ۔ خود امریکہ اور دوسری اسرائیل کے حامی ممالک بھی اسی بات پر زور دیتے رہے تھے کہ دو مملکتی حل دریافت کرنے کوشش کی جائے ۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہمیشہ کی طرح ساری دنیا کے قوانین اور اصولوںکو خاطر میں لائے بغیر اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر عمل کرنے لگا ہے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو عملی شکل دینے کی تیاریاں کرچکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب خود اسرائیلی وزیر اعظم بنجام نتن یاہو نے مملکت فلسطین کے وجود کی نفی کردی ہے ۔ یہودی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اب کوئی فلسطینی مملکت نہیں رہے گی کیونکہ یہ زمین اسرائیل کی ہے اور اسرائیل یہاں اپنی آبادی کو دوگنی کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ یہاں ہزاروں یہودیوں کے گھر اور مکانات تعمیر کئے جائیں گے ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم سے قبل وہاں کے ایک وزیر نے بھی چند ہفتے قبل اسی طرح کی بات کہی تھی اور کہا تھا کہ مملکت فلسطین کا تصور ہی ختم کردیا جائے گا ۔ اسرائیل اب کھلے عام اپنے منصوبے اور عزائم کا اظہار کرتے ہوئے گریٹر اسرائیل کو حقیقت کا روپ دینے کی سمت پیشرفت کرنے لگا ہے ۔ جس طرح سے غزہ میں لگاتار دو سال تک وحشیانہ جنگ برپا کی گئی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی تھی اسی سے اس بات کے اشارے مل رہے تھے کہ اسرائیل در حقیقت چاہتا کیا ہے ۔ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا اور لاکھوںفلسطینی بے گھر ہوگئے ۔ بسی بسائی بستیوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بچوں کو تک شہید کرنے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ یہ اسرائیل کے وحشیانہ عزائم اور منصوبوں کا ثبوت ہے ۔
اب جبکہ اسرائیل کے وزیر اعظم نے بھی مملکت فلسطین کی نفی کردی ہے اور یہ اعلان کردیا ہے کہ کوئی فلسطینی مملکت نہیں رہے گی تو یہ ساری دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل پر لگام کسے ۔ دو مملکتی حل دریافت کرنے کی سمت پیشرفت کی جائے ۔ اسرائیل کو مملکت فلسطین کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے ۔ جس طرح سے مغربی دنیا کے مطالبات کو خاطر میں نہ لانے اور یوکرین میں جنگ جاری رکھنے والے ملک روس کے خلاف تحدیدات عائد کی گئی ہیں اسی طرح فلسطین کے خلاف بھی سخت ترین تحدیدات عائد کی جائیں۔ اس کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر مجبور کیا جائے اور اگر اسرائیل ہٹ دھرمی دکھاتا ہے اور ایسا کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ جس طرح سے اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا تھا اسی طرح اسرائیل کے خلاف بھی ناکہ بندی کی جانی چاہئے ۔ اسے بھی غذا اور پانی سے محروم کرنے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے اور مملکت فلسطین کے وجود کو تسلیم کرے ۔ مغربی ممالک اس معاملے میں خاص طور پر اہم اور سرگرم رول ادا کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں حقوق انسانی کی دہائی دینے والے ممالک کو فلسطین کے نہتے اور بے یار و مدد گار عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے اور اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف بھی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔
حیرت اورافسوس کی بات ہے کہ اسرائیل کھلے عام اپنے منصوبوں کا اظہار کر رہا ہے اور مسلم اور عرب ممالک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ کسی بھی مسئلہ پر محض زبانی بیان بازی کرتے ہوئے بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صیہونی اسرائیل اپنی ظالمانہ اور جابرانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ کم از کم اب ان ممالک کو حرکت میں آنے اور محلات شاہی سے باہر آنے کی ضرورت ہے ۔ مغربی ممالک سے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے اسرائیل کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے عملی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ حکمران بھی فلسطینیوں کے مجرم ہی کہلائیں گے ۔