گزرتی ہے جو دل پر بولتے ہیں
نظر چُپ ہو تو منظر بولتے ہیں
بی جے پی ملک میں رام مندر کی تعمیر کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیںمنظم انداز میںشروع کرچکی ہے اور اس کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ رام مندر کی تعمیر اور اس کا افتتاح حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور ایک ٹرسٹ اس کا ذمہ دار ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سارے معاملے کو بی جے پی نے مذہبی معاملہ کی بجائے سیاسی معاملہ بناتے ہوئے اس کو یرغمال بنالیا ہے اور اب اس کے ذریعہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے منصوبے تیار کرلئے گئے ہیں۔ جہاں تک ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے جو اپوزیشن میں ہیں وہ اس مسئلہ پر لیت ولعل کا شکار رہی ہیں۔ کئی جماعتیں ایسی ہیں جو اس افتتاحی تقریب میںشرکت کرنا بھی چاہتی ہیں لیکن وہ اس لئے اس سے دور رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں کیونکہ اس تقریب کو بی جے پی نے اپنی تقریب بنالیا ہے اور ایک سیاسی اکھاڑہ تیار کردیا گیا ہے ۔ جو جماعتیں اس افتتاحی تقریب میںشرکت سے گریزاں ہیں بی جے پی ان کو نشانہ بنانے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ انہیںمخالف ہندو قرار دیا جا رہا ہے ۔ انہیںموافق مسلم قرار دیا جا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مذہبی اور سماجی سطح پر ایک خط فاصل ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کھینچ دی گئی ہے اور بی جے پی نہیںچاہتی کہ اس کو مٹایا جاسکے ۔و ہ جب تک ہندو مسلمانوں میں تفریق کرتی رہے گی اسے سیاسی کامیابی ملتی رہے گی ۔ یہ بی جے پی کا احساس ہے اور اس کا ایجنڈہ بھی یہی ہے ۔ اس کے علاوہ جو عوام کو درپیش انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس نوعیت کے مسائل ہیں ان کو کہیںپس منظر میںڈھکیل دیا گیا ہے ۔ عوامی مسائل پر کسی طرح کی لب کشائی کسی جانب سے نہیں کی جا رہی ہے ۔ کانگریس کی جانب سے اگر اس طرح کے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں اور کچھ علاقائی جماعتیں ان کی تائید کر بھی رہی ہیں تب بھی بی جے پی مندر ‘ ہندو ۔ مسلمان کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے گودی میڈیا کی مدد سے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ صرف بی جے پی اس کام پر لگی ہوئی ہے بلکہ اس کی ہمنوا تنظیمیں بھی سرگرم ہوگئی ہیں۔
جہاں بی جے پی اور سنگھ پریوار کی تنظیمیں کانگریس اور دوسری جماعتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں وہیں ایک صورتحال یہ بھی پیدا ہوئی ہے کہ ملک کے چار اہم مٹھوں کے شنکر آچاریہ نے بھی اس افتتاحی تقریب میںشرکت سے انکار کردیا ہے ۔ ان شنکر آچاریاوں کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی تقریب نہیں رہ گئی ہے بلکہ اسے سیاسی دنگل میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو فائدہ پہونچانے کیلئے ہونے والی تقریب میںشرکت نہیںکرینگے ۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ مذہب یا مندر کے مخالف ہیں بلکہ وہ ان امور کو سیاسی فائدہ کیلئے اٹھانے اور ان کا استحصال کرنے کے مخالف ہیں۔ جہاں سیاسی جماعتیں یہی موقف رکھتی ہیں وہیں چار بڑے اورا ہم مٹھوں کے شنکر آچاریہ بھی اسی خیال کا اظہار کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے پاس یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ شنکر آچاریہ کو بھی مخالف ہندو یا موافق مسلمان قرار دے ۔ جس طرح بی جے پی مندر مسئلہ کوسیاسی فائدہ کیلئے ہمیشہ استعمال کرتی رہی ہے اسی طرح کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ چاروں شنکر آچاریاؤں کے موقف کی خوب تشہیر کو یقینی بنائے ۔ میڈیا ہو یا سوشیل میڈیا ہو سبھی پلیٹ فارمس کا استعمال کرتے ہوئے شنکر آچاریاوں کے موقف کی تشہیر کرتے ہوئے اسے عوام تک پہونچانے پر توجہ دی جائے ۔ یہ ایک موثر ذریعہ ہوسکتا ہے جس کے ذریعہ اپوزیشن جماعتیں اس مسئلہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بی جے پی کی کوششوں کے اثر کو کم سے کم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
جس طرح بی جے پی کھلے عام ہندوتوا کو فروغ دینے اور اقلیتوں کو حاشیہ پر کردینے کی مہم شروع کرچکی ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ کانگریس اور دیگرا پوزیشن جماعتیں اس مسئلہ پر رائے عامہ کو ہموار کرنے اور ان میںمذہبی اور سیاسی امور میں امتیاز اور فرق کرنے سے متعلق شعور بیدار کرنے پر زیادہ توجہ دیں۔ موثر ڈھنگ سے مہم چلائیں اور شنکر آچاریاوں کی رائے سے انہیں واقف کروائیں۔ بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے سے روکنے کیلئے محض بیان بازیوں سے کام نہیں چل سکتا ۔ اس کیلئے ایک منظم اور جامع حکمت عملی تیار کرتے ہوئے کام کرنا ہوگا ۔ اپوزیشن کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔