مندر کی توسیع کیلئے 200 سالہ مسجد کے انہدام کو سپریم کورٹ میں چیالنج

   

اجین ۔ 4 نومبر (ایجنسیز) مدھیہ پردیش کے اجین میں واقع تاریخی تکیہ مسجد کے انہدام کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔ یہ عرضی مسجد میں نماز ادا کرنے والے 13 نمازیوں کی جانب سے دائر کی گئی ہے جنہوں نے مدھیہ پردیش حکومت پر وقف جائیداد کو غیر قانونی طور پر منہدم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ عرضی گذاروں کے مطابق، تکیہ مسجد تقریباً دو سو سال پرانی عبادت گاہ ہے جسے 1985 میں باضابطہ طور پر وقف کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ مسجد میں رواں سال جنوری تک باقاعدگی سے نمازیں ادا کی جارہی تھیں، تاہم جنوری میں انتظامیہ اور ریاستی حکومت نے مہاکال مندر کی پارکنگ توسیعی اسکیم کے نام پر مسجد کو غیر قانونی اور من مانی کارروائی کے ذریعہ منہدم کردیا، عرضی میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مسجد کے انہدام نے ملک کے کئی اہم قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، جن میں شامل ہیں عبادت گاہ (خصوصی التزام) ایکٹ 1991 وقف ایکٹ 1995 (جسے اب انٹیگریٹیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ کہا جاتا ہے) حصول اراضی، بحالی و آبادکاری ایکٹ 2013، جس میں منصفانہ معاوضہ اور شفافیت کا حق دیا گیا ہے۔ عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست کی جانب سے زمین کے حصول کا عمل بھی غیر منصفانہ اور بے ضابطگیوں سے بھرپور تھا۔ بتادیں کہ تکیہ مسجد اجین کی نظام الدین کالونی میں واقع ایک قدیم مسجد ہے جو مہاکالیشور مندر کے توسیعی منصوبہ کی زد میں آگئی۔ اس منصوبہ کے تحت مندر کے احاطہ کو 5.2 ہیکٹر سے بڑھاکر 40 ہیکٹر سے زیادہ تک پھیلانے کا منصوبہ ہے تاکہ پورے علاقہ کو سات گنا بڑا کیا جاسکے۔ اس توسیع کے دوران مسجد سمیت 257 مکانات کو بھی منہدم کردیا گیا۔ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ مسجد وقف جائیداد ہے اور اس پر انتظامیہ کی کارروائی غیر آئینی اور مذہبی آزادی کے خلاف ہے، جبکہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ عمارت غیر قانونی تجاوزات میں شامل تھی۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے جہاں عرضی گذاروں نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر انصاف فراہم کرے اور وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے واضح رہنما اصول جاری کرے۔
ذرائع کے مطابق، عدالت میں جلد ہی اس معاملہ پر ابتدائی سماعت متوقع ہے، جس کے بعد اس حساس اور مذہبی طور پر اہم کیس کا قانونی رخ مزید واضح ہوگا۔