منقسم قوم معاشرہ کے زوال کا سبب

   

پی چدمبرم
انتخابات میں ایک امیدوار کامیاب اور دوسرا ناکام ہوتا ہے لیکن ہر انتخابات میں قوم پہلے سے کہیں زیادہ تقسیم بھی ہوسکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہی سبق امریکی صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی اہم ترین ریاست بہار اسمبلی کے انتخابات نے ہمیں دیا ہے، جہاں تک ضمنی انتخابات کا سوال ہے یہ الگ معاملہ ہے۔ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب کسی ریاست میں ایک یا کئی اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے اور یہ انتخابات حکومت کی کارکردگی اور قبولیت کی آزمائش ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آج کل جو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں اس میں حکمراں جماعت کو زبردست فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دولت اور اقتدار دونوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں ایسا لگتا ہے کہ ووٹرس یا رائے دہندے کچھ اور سوچتے ہیں اور یہی سوچ کر وہ حکمراں پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کی فکر یہ ہوتی ہے کہ کم از کم اپنے کام تو ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک کام کا مطلب ہے ایک ہینڈ پمپ کی تنصیب یا روڈ بچھانے کا کام یا پھر کسی کے رشتہ دار کو سرکاری ملازمت کا حصول ہوسکتا ہے۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ووٹوں کے لئے کہنا اور ووٹ دینا خالصتاً رقمی معاملہ ہوگیا ہے۔ یعنی لو اور دو کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔

شمال جنوب کا فرق
عام انتخابات بہتر آزمائش ہوتے ہیں، کیرالا میں اس کا پیارٹرن یا نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیرالا کے عوام دو محاذوں ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف کی تائید و حمایت کرتے ہیں اور انہیں ایک بعد ایک انتخابات میں منتخب کرتے ہیں۔ کبھی ایل ڈی ایف کو اقتدار سونپتے ہیں تو کبھی یو ڈی ایف کو اکثریت دلاکر اقتدار پر فائز کردیتے ہیں۔ کیرالا میں ایسا 1980 سے ہو رہا ہے جبکہ تاملناڈو میں 1989 سے 2016 تک اسی نمونے پر عمل ہوتا رہا۔ جئے للیتا کی زیر قیادت اے آئی اے ڈی ایم کے نے 2016 میں ڈی ایم کے کے خلاف کامیابی حاصل کرتے ہوئے یہ روایت توڑ دی۔ اس وقت ڈی ایم کے کی قیادت ایم کروناندھی کررہے تھے اور وہ مختلف عارضوں میں مبتلا تھے پنجاب میں بھی کیرالا کی طرح کا نمونہ ہوا کرتا تھا لیکن 2012 میں یہ روایت پنجاب میں بھی ختم ہوگئی۔ اگر آپ شمالی ہند کے ریاستوں کا جائزہ لیتے ہیں گجرات سے لے کر بہار پر نظریں دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی نے کانگریس کو جو اقتدار کی اجارہ دار سمجھی جاتی تھی اقتدار سے محروم کردیا۔ جنوبی ریاستوں (کیرالا، تاملناڈو، کرناٹک، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور مرکزی زیر انتظام علاقہ پڈوچیری) میں علاقائی پارٹیوں نے کامیابی حاصل کی سوائے کرناٹک کے۔ وہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ کانگریس، سی پی آئی ایم اور سی پی آئی نے کیرالا میں غیر معمولی سیاسی دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے جہاں باری باری سے ان جماعتوں کی زیر قیادت محاذوں کی حکومتیں آتی ہیں اور ان ریاستوں میں مخصوص علاقائی پارٹیاں کسی قومی پارٹی کے ریاستی یونٹ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔

قوم ۔ قوم پرستی
مجھے ’’منقسم قوم‘‘ کے رجحان کی طرف واپس جانے دیجئے۔ یہ قوم ۔ قوم پرستی میں گہری تقسیم کے پیچھے کارفرما ایک بڑی طاقت ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں قوم ۔ قوم پرستی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جیسے سفید فام باشندوں کی اجارہ داری اور نسلی و صنفی تعصب کے ساتھ ساتھ مشکوک عالمیانہ کی مورچہ بندی دیکھی گئی اور یہ سب کچھ انتخابات سے عین قبل نظر آیا۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کئی ایسے فیصلوں سے گریز کرسکتے تھے جنہوں نے عوام کو برہم کردیا۔ مثال کے طور پر نافٹا سے انحراف، عالمی حدت سے متعلق پیرس معاہدے سے دستبرداری، اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت (WHO) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (عالمی تجارتی تنظیم) کو امریکی مالی امداد سے انکار کے علاوہ ناٹو کو بے اثر کرنے کی کوشش وغیرہ۔ اس طرح کے فیصلوں نے امریکہ کے مفادات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور خود ڈونالڈ ٹرمپ بھی صدارتی انتخابات میں ان فیصلوں کے نقصانات کی زد میں آگئے۔

ہندوستان میں قوم ۔ قوم پرستی، فراخدلانہ جبلت جیسے ہندو اجارہ داری، اعلیٰ ذات کی برتری، اقلیتوں، دلتوں اور پڑوسی ملک پاکستان کے تئیں دشمنی اور تحفظ پسندی پوشیدہ ہے۔ جہاں تک ملکوں کی ترقی کا سوال ہے کوئی بھی ملک اچانک ایک ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا اور یقینا ایک دولت مند ملک کی حیثیت سے نہیں ابھر سکتا اگر وہ نصف یا نصف سے زیادہ اپنی آبادی کو غریب رکھتا ہو، شہریوں میں امتیاز برتتا ہو اور انہیں محروم رکھتا ہو۔ اگر کوئی ملک پڑوسی ملک کے ساتھ عداوت رکھتا ہے تو وہ بھی قدرتی وسائل کا بہتر طور پر ترقی کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ملک تحفظ پسندی کی دیواریں کھڑی کرتا ہے تو وہ بھی ایک ترقی یافتہ ملک نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی ملک کسی بھی قسم کے امیگریشن اور داخلی ہجرت کے لئے اپنے دروازے بند کرتا ہے تو پھر صلاحیتوں کا بہتر انداز میں استعمال نہیں کرسکتا۔ اس سلسلہ میں نوبل لاریٹ رابیندر ناتھ ٹائیگور نے اپنی نظم گیتانجلی میں واضح طور پر کہا ہے کہ دنیا تنگ و تاریک دیواریں تعمیر کرتے ہوئے ترقی کی جانب رواں دواں نہیں ہوسکتیں۔ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو پھر موت کے آغوش میں پہنچانے والی صحرا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں 72.3 ملین رائے دہندوں نے ووٹ کا استعمال کیا اس طرح انہیں جملہ رائے دہندوں میں سے 47.4 فیصد کی تائید حاصل ہوئی، اس کے باوجود ٹرمپ انتخابات میں شکست کھا گئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عالمی رہنماوں کی جانب سے مسٹر جوبائیڈن کو امریکہ کا نومنتخب صدر تسلیم کئے جانے کے باوجود مسٹر ٹرمپ اور نہ ہی ان کے کٹر حامی اس ناکامی کو قبول کرنے کے موڈ میں ہیں۔ وہ یہ قبول ہی نہیں کررہے ہیں کہ ٹرمپ بائیڈن کے مقابلہ شکست سے دوچار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں مسلسل انتخابی کامیابی کے باوجود مسٹر نریندر مودی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں یا دلتوں تک نہیں پہنچ پائے۔ دوسری طرف غریبوں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات لو اور دو کے ہیں یعنی آپ میرے لئے ووٹ دیجئے، میں آپ کو بجلی، بیت الخلاء، کورونا وائرس کے خلاف مفت ٹیکہ دوں گا۔ ان کی حکومت نے ایسا کرنے کی کبھی کوشش یا تصور بھی نہیں کیا کہ ہندوستان میں ہر بچہ کو عالمی معیار کی تعلیم دی جائے گی۔ ہر خاندان کے پاس کام؍ ملازمت ہوگی جس سے وہ خط غربت سے اوپر اٹھیں گے اور حکمرانی یا حکمرانی میں شراکت کا مذہب یا ذات پات سے اور زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ فی الوقت ہندوستان میں یہ کوشش نہیں کی گئی کہ ہندوستان ایک جدید سائنس و ٹکنالوجی پر مبنی سیکولر، متنوع اور کھلا معاشرہ ہوگا۔

جہاں تک امریکہ کا سوال ہے امریکہ میں مسٹر بائیڈن نے ٹرمپ کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی اور عوام کا غیر معمولی اعتماد بھی حاصل کیا۔ انہوں نے معاشرے کی تقسیم کو روکنے مزاحمت کی بجائے تعاون و اشتراک کی راہ اپنانے، عوام سے دوری اختیار کرنے کی بجائے عوام کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ نسلی و صنفی امتیاز کو یقینی بنانے کا پیام دیا۔ اس کے برعکس ہندوستان میں کوئی بھی جماعت اس طرح کے پیغام کی حامل نظر نہیں آتی خاص طور پر شمالی ہند کی ریاستوں میں ایسی کوئی جماعت نہیں جو یہ پیام دے کہ وہ مسٹر مودی اور بی جے پی؍ آر ایس ایس نے جو ایجنڈہ آگے بڑھایا ہے اسے روکے گی یا اسے ناکام بنائے گی۔ میرا ہمیشہ یہی ماننا ہے کہ تقسیم کی سیاست امریکہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ اس سے امریکہ کو نقصان ہوسکتا ہے اور خاص طور پر سماجی طور پر لیکن معیشت ہنوز سیدھی راہ پر ہے اور سرمایہ کاری کی ترغیب بھی مل رہی ہے۔ وہاں روزگار اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں، غریبوں کو اوپر اٹھانے کے لئے راہ فراہم کی جارہی ہے۔ دوسری جانب ہندوستان کو بھی نقصان ہوگا، معاشرہ تقسیم ہو جائے گا۔ معیشت سست روی کا شکار ہوگی، غریب غریب رہیں گے اور اقتصادی تفاوت بڑھ جائے گا۔ امریکی انتخابات کے بعد تبدیلی کے محرک بننے والے اقدامات شروع ہوچکے ہیں اور بہار میں اس کے برعکس ہے۔ خود مسٹر مودی مرکز میں 2014 سے اور مسٹر نتیش کمار 2005 سے اقتدار میں ہیں۔ اس کے باوجود بہار ملک کی سب سے پسماندہ ریاست ہے۔ اگر بہار کے لوگوں نے ’’تبدیلی نہیں‘‘ کے لئے ووٹ دیا ہے تو ہمیں اس فیصلے کو قبول کرنا اور آگے بڑھنا ضروری ہے۔