منموہن سنگھ ‘ ایک عہد کا خاتمہ

   

ستم ظریف اندھیرے بجھا سکے نہ دیئے
چراغ یاد کے جلتے ہیں اور بجھتے ہیں
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اب ہمارے بیچ نہیں رہے ۔ کل رات ان کا دہلی کے ایک دواخانہ میں انتقال ہوگیا ۔ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر ہی میں اچانک بیہوش ہوگئے تھے ۔ انہیں ضعیف العمری سے متعلق امراض بھی لاحق تھے ۔ دواخانہ میں ان کے علاج کی ہرممکن کوشش کی گئی تاہم کل رات 9.51 بجے وہ چل بسے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر سارے ملک میں افسوس اور غم کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ زندگی کے خاتمہ کے بعد ان کو جو خراج پیش کیا جا رہا ہے وہ خود میں ایک مثال ہے ۔ سماج کے تمام طبقات کی جانب سے ان کو جو تعزیت پیش کی جا رہی ہے اس سے ان کے سیاسی قد کا پتہ چل رہا ہے ۔ حالانکہ ان کے دور وزارت عظمی میں ان کی خاموشی پر تنقیدیں بھی کی گئیں۔ ان پر شخصی حملے بھی کئے گئے تھے لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ ایسے وزیر اعظم رہے جنہوں نے تنقیدوں اور الزامات کی پرواہ کئے بغیر ہندوستان کی معیشت کو ساری دنیا کے برابر لا کھڑا کرنے کا ایک فقید المثال کارنامہ انجام دیا ہے ۔ انحطاط اور معاشی پستی کے دور سے نکال کر ہندوستان کو معاشی ترقی کی راہ پر تیز رفتاری سے گامزن کرنے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پالیسیاں ہی اصل وجہ رہی ہیں۔ آج بھلے ہی ہندوستان کو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کہا جا رہا ہو اور تین ٹریلین ڈالرس کی معیشت بنانے کی بات کی جا رہی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بڑے خوابوں کی بنیاد ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 1991 میں اس وقت کے وزیر فینانس کی حیثیت سے رکھی تھی ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ہندوستان کی معیشت کو عالمی مارکٹ کیلئے کھولتے ہوئے ملک میں جو تبدیلی کی بنیاد رکھی تھی آج اس کے ثمرات ساری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور وزارت عظمی میں جو سیاسی مخالفین ان کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے رہے اور شخصی حملے کرتے رہے آج وہ بھی ان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہی دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ملک میں غربت و افلاس اور معاشی تنگ دستی کے دور کو ختم کرنے اور دنیا کی بڑی معیشت بننے کی سمت ہندوستان کا جو سفر ہے اس کا سہرا صرف ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سر جاتا ہے ۔
آج ہندوستان میں ہم جس طرح کی سیاست دیکھ رہے ہیں وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور کی سیاست سے بالکل مختلف کہی جاسکتی ہے ۔ بالکل مغائر کہی جاسکتی ہے ۔ اخلاقیات اور اقدار پر مبنی سیاست ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پہچان رہی تھی ۔ وہ اردو دان طبقہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اور اردو لکھنے پڑھنے میں مہارت رکھتے تھے ۔ وہ مخالفین کی تنقیدوں اور شخصی الزامات کی پرواہ کئے بغیر اپنی لگن میں کام کرنے والی شخصیت تھے ۔ 10 سال تک وہ ملک کے وزیر اعظم رہے اور انہوں نے ملک کی معاشی بہتری کیلئے نمایاں کارنامے انجام دئے تاہم ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ کیمرے مینس کی فوج لے کر نہیں گھومتے تھے ۔ ان پر تنقیدیں کرنے والوں کو نشانہ بنانے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کبھی یقین نہیں رکھا ۔ وہ تنقیدوں اور الزامات کو خاطر میں لائے بغیر بے تکان جدوجہد کرنے اور کام کرنے میں یقین رکھتے تھے ۔ آج ہندوستان میں چاہے جس کسی شعبہ میں ترقی ہوئی ہو اور دنیا بھر میں ہندوستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے اور ہندوستانیوں کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جار ہا ہے تو اس کا سہرا ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سر جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سنگھ کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اپنے کارناموں کی تشہیر میں یقین نہیں کیا ۔ جو کام خود انہوں نے کیا ہے اس کا سہرا بھی کبھی انہوں نے اپنے سر نہیں لیا اور یہی بات انہیں دوسرے سیاستدانوں سے منفرد بناتی تھی ۔ وہ تشہیر یا پروپگنڈہ کی بجائے عملی طور پر کام کرنے میں یقین رکھتے تھے اور اس کی مثال قائم کی ہے ۔
ڈاکٹر سنگھ کے اس دنیا سے کوچ کرجانے سے اخلاق و اقدار پر مبنی سیاست میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا شائد بہت مشکل ہو ۔ انہوں نے خاموش خدمات کے ذریعہ دوسروں کیلئے مثال قائم کی ہے ۔ وزارت عظمی کے دور میں میڈیا میں انہیںخاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کا مذاق تک اڑایا گیا تھا لیکن یہ ڈاکٹر سنگھ کا اعلی کردار تھا کہ انہوں نے کسی کو نشانہ نہیں بنایا تھا ۔ صرف ایک مرتبہ انہوں نے ریمارک کیا تھا کہ میڈیا نے ان کے ساتھ بے رحمی والا رویہ اختیار کیا تھا لیکن تاریخ کا رویہ ان کے ساتھ نرم ہوگا اور یہ بات ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بالکل درست ثابت بھی ہو رہی ہے ۔