رفتار عصرِ نو کا نہ جو ساتھ دے سکے
بے دردیوں سے اُن کو زمانہ کچل گیا
سابق وزیر اعظم آنجہانی منموہن سنگھ کی آخری رسومات کے مقام اور پھر ان کی یادگار کی تعمیر کیلئے جگہ کی فراہمی کے مسئلہ پر بھی بی جے پی اور کانگریس میں سیاست شروع ہوگئی ہے ۔ جہاں کانگریس پارٹی نے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت پر منموہن سنگھ کی آخری رسومات کیلئے مناسب جگہ فراہم نہ کرتے ہوئے ان کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا ہے وہیں بی جے پی نے روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے کانگریس کو ماضی کے واقعات پر نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔ کانگریس کا الزام تھا کہ مودی حکومت نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی آخری رسومات راج گھاٹ پرا دا کرنے کی بجائے نگم بودھ گھاٹ پر ادا کرتے ہوئے ان کی ہتک کی ہے اور یہ سکھ برادری کے پہلے وزیر اعظم کی بھی توہین ہے ۔ ساتھ ہی پارٹی کا کہنا تھا کہ حکومت نے ڈاکٹر سنگھ کی یادگار کی تعمیر کیلئے بھی مناسب جگہ متعین نہیں کی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا ہے کہ کانگریس نے کبھی بھی غیر گاندھی قائدین کا احترام نہیں کیا ہے اور پہلے سکھ وزیر اعظم کی ہتک کے جواب میں بی جے پی نے 1984 کے مخالف سکھ فسادات کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ سب کچھ سیاسی فائدہ کیلئے کیا جا رہا ہے ۔ جس وقت ڈاکٹر منموہن سنگھ کا انتقال ہوگیا اس کے بعد سے انہیں ملک بھر میں جس قدر و منزلت کے ساتھ خراج پیش کیا گیا اور ان کی عوامی مقبولیت کا پتہ چلا تو تو بی جے پی اس کا قبل از وقت اندازہ نہیں کر پائی تھی ۔ بی جے پی کو یہ بھی امید نہیں تھی کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتہائی کٹر ناقدین بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور انہیں انتہائی مثبت انداز میں خراج پیش کرینگے ۔ یہی وجہ رہی کہ بی جے پی اس معاملے میں سنجیدگی سے کام نہیں کر پائی ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت نے آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے نگم بودھ گھاٹ کا انتخاب کیا اور یہ فیصلہ اس کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے کی وجہ بن رہا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت ڈاکٹر سنگھ کی یادگار تعمیر کرنے کیلئے بھی مناسب جگہ فراہم نہیں کرسکی اور اسی پر کانگریس پارٹی اسے تنقیدوں کا نشانہ بنا رہی ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک انتہائی قابل اور ملک کی معیشت کو بلندیوں پر پہونچانے والی شخصیت ڈاکٹر منموہن سنگھ کی آخری رسومات کیلئے جو کچھ جگہ فراہم نہیں کی گئی ہے جو کی جانی چاہئے تھی ۔ کانگریس پارٹی نے اپنی جانب سے واجبی طور پر اعتراض جتایا ہے اور اس کا کہنا تھا کہ ملک کے عظیم سپوت کا احترام کرتے ہوئے بہتر جگہ فراہم کی جانی چاہئے تھی ۔ بی جے پی اس صورتحال کیلئے تیار نہیں تھی اور اب بی جے پی ہو یا پھر مرکزی حکومت ہو سبھی اس پر بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کانگریس کو ماضی کے واقعات کیلئے تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے عوام کا ذہن بھٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 1984 کے مخالف سکھ فسادات کا حوالہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ فسادات ہوئے چار دہے سے زیادہ کا وقت ہوگیا ہے اور کانگریس پارٹی نے ان فسادات پر معذرت خواہی بھی کرلی ہے ۔ تاہم ان فسادات کی یاد تازہ کرتے ہوئے سکھ برادری کے زخموں کو کریدنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ فسادات کیلئے جو کوئی ذمہ دار تھے انہیں عدالتوں سے سزائیں بھی دی گئی ہیں اور کانگریس پارٹی نے معذرت خواہی بھی کی تھی ایسے میں ان کا تذکرہ کرنا زخموں کو کریدنے کے مترادف ہی کہا جاسکتا ہے اور بی جے پی نے اپنے سیاسی فائدہ کیلئے ایسا کیا ہے ۔ اسے ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ تاہم سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے بی جے پی نے اس انتہائی حساس موقع پر بھی اپنی روش نہیں بدلی ہے ۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ ہی وہ رہنماء تھے جنہوں نے ملک کی معیشت کو تباہی کے قریب سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا تھا اور آج ہماری معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے تو یہ ڈاکٹر سنگھ کی ہی مرہون منت ہے ۔ ان کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہئے تھا ۔ ڈاکٹر سنگھ کے دور وزارت عظمی میں بھی انہیں تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ ان پر الزامات عائد کئے گئے تھے اور شخصی حملے بھی ہوئے تھے ۔ ان کی موت کے بعد کم از کم ان سے انصاف کیا جانا چاہئے تھا جو نہیں کیا گیا ۔ حکومت کو اس معاملے کا از سر نو سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور جس طرح کی منفی سیاست کی جا رہی ہے اس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔