منوگوڑ ‘ ووٹرس کی ذمہ داری

   

ہماری ریاست تلنگانہ کے ایک حلقہ اسمبلی کے منوگوڑ ضمنی انتخاب کیلئے آج رائے دہی ہونے والی ہے ۔ رائے دہی سے قبل انتخابی مہم انتہائی زور و شور کے ساتھ چلائی گئی ۔ ریاست میں اہمیت کی حامل تین سیاسی جماعتوں ٹی آر ایس ‘ کانگریس اور بی جے پی نے پوری طاقت جھونکتے ہوئے اس حلقہ میںانتخابی مہم چلائی ہے ۔ انہوںنے نہ صرف ساری طاقت جھونک دی بلکہ انہوں نے پیسے کے دریا بھی بہا دئے ۔ اس ایک حلقہ کے انتخاب کو ساری ریاست کے انتخاب کی طرح لڑا گیا ہے ۔ یہاں ہر جماعت کے تمام بڑے قائدین نے انتخابی مہم میں حصہ لیا ۔ رائے دہندوں کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ کوشش تو ویسے بھی ہر بار کے انتخاب میں ہوتی ہی ہے لیکن اس بار رائے دہندوں کے ووٹ حاصل کرنے کی بجائے ووٹ خریدنے کی کوشش کی گئی ۔ سیاسی جماعتوںسے وابستہ کارکنوں کی اور مقامی سطح پر عوامی منتخبہ نمائندوں کی وفاداریاں بھی منہ مانگے دام میں خریدی گئیں ۔ ان کارکنوں کو طرح طرح کے لالچ دئے گئے تھے ۔ ہر امیدوار اور ہر سیاسی جماعت کی جانب سے ووٹرس کو لالچ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ اس حلقہ اسمبلی میں اپنی سیاسی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے جمہوری طرز عمل کو داغدار کرنے سے بھی کسی بھی جماعت نے گریز نہیں کیا ۔ ہر جماعت کی جانب سے ووٹرس کو رجھانے کے ساتھ ساتھ انہیں خریدنے کی بھی کوشش کی گئی ۔ ہر جماعت کی جانب سے دوسری جماعت کے کارکنوں اور قائدین کو بھی اپنے ساتھ ملانے کیلئے ہر حربہ اختیار کیا گیا ۔ جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق کروڑہا روپئے صرف کرتے ہوئے اس حلقہ میںالیکشن میں مقابلہ کیا گیا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے پرا لزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ ویسے بھی جاری رہتا ہے اور الیکشن میں تو یہ عروج پر پہونچ جاتا ہے لیکن منوگوڑ میںہر جماعت نے ایسے ہتھکنڈے اور حربے اختیار کئے ہیں جن کے نتیجہ میں جمہوری عمل مستحکم ہونے کی بجائے کمزور ہوا ہے اور ووٹرس کی اہمیت چند ہزار روپئے تک محدود کردی گئی ہے ۔ انہیں مطمئن کرنے کی بجائے انہیں خریدنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
تلنگانہ راشٹرا سمیتی ہو کہ کانگریس ہو یا پھر بی جے پی ہو سبھی نے انتخابات میں قواعد و قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مہم چلائی ہے ۔ امیدواروں نے اپنے طور پر جو حربے اور ہتھکنڈے اختیار کرنے تھے وہ کرلئے ۔ ووٹرس کو جو لالچ دئے جانے تھے وہ بھی دئے گئے ۔ انہیں خریدنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے ۔ خود کو عوام کا حقیقی نمائندہ قرار دینے میں بھی ہر ایک نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے تاہم سارا کھیل صرف افرادی قوت اور پیسے کی طاقت کا دکھائی دے رہا ہے ۔ اب جبکہ انتخابی مہم ختم ہوچکی ہے اور فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے تو عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کا باعث اور ذریعہ بنیں۔ انہیں اپنے حق رائے دہی کا جذباتیت کا شکار ہو کر یا کسی لالچ کا شکار ہو کر استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔ کسی کے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے یا پھر کسی اور وجہ سے اپنے ووٹ کا استعمال نہیںکرنا چاہئے بلکہ پوری فہم و فراست کا استعمال کرتے ہوئے اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔ ایک ووٹ عوام کی وہ طاقت ہے جس کے آگے تمام سیاسی جماعتیں اور قائدین سرنگوں ہوتے ہیں اور عوام کو اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مفاد پرست قائدین اور جماعتوں کو سبق سکھانے کے اہل ہیں۔ انہیں اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف منوگوڑ حلقہ بلکہ ساری ریاست کے قائدین اور جماعتوں کیلئے ایک پیغام دینے کی ضرورت ہے تاکہ سبھی کو اپنے محاسبہ کی ضرورت محسوس ہو ۔
جمہوریت میں قطعی اور آخری فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی مہم سے بالاتر ہوتے ہوئے یا لالچ کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہوئے عوام کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے ۔ عوام کو اپنے مسائل اور حلقہ کی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حقیقی معنوں میں عوام کی رہنمائی اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے امیدوار کو منتخب کرنا چاہئے ۔ جمہوری عمل کو مستحکم کرنے اور بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کو ختم کرنے کے جذبہ سے عوام کو ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔ رائے دہی کے تناسب میں بھی اضافہ کیا جانا چاہئے اور اپنے ووٹ کی طاقت کا تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو احساس کروانا بھی چاہئے ۔