منی پور کی صورتحال کب بہتر ہوگی؟

   

پی جاتے ہیں حالات کی تلخی کو ہمیشہ
حالات پہ ہم اپنے تاسف نہیں کرتے
شمال مشرقی ریاست منی پور کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے ہر گذرتے دن کے ساتھ بگڑتی ہی جا رہی ہے ۔ تشدد میں کمی آنے کی بجائے اس میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ تشدد اور آگ زنی عام ہوگئی ہے ۔ لوگوں زندگیوں سے ہاتھ دھونے لگے ہیں اور جائیداد و املاک کا نقصان بھی بے تحاشہ ہونے لگا ہے ۔ اب تو تخریب کاروں نے ایک مرکزی وزیر کا مکان بھی نذر آتش کردیا ہے ۔ تشدد کے واقعات پر قابو پانے کیلئے مرکزی اور ریاستی حکومت کی جانب سے جو کچھ بھی اقدامات کے دعوے کئے گئے ہیں وہ سب کے سب کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں اور حالات میں کسی طرح کی بہتری نہ پیدا ہوئی ہے اور نہ فوری طور پر کوئی امید نظر آنے لگی ہے ۔ اس صورتحال میں جبکہ کشیدگی انتہاء پر پہونچ رہی ہے مرکزی وزیر کا گھر نذر آتش کردیا جانا بھی انتہائی افسوسناک واقعہ ہے ۔ مرکزی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تخریب کاروں نے کیوں ان کے گھر کو نشانہ بنایا ہے ۔ ان کا دعوی تھا کہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ناکام ہوگئی ہے ۔ مرکزی وزیر کا یہ ریمارک اہمیت کا حامل ہے ۔ کئی گوشوں کی جانب سے یہی دعوی کیا جا رہا تھا کہ ریاست میں حکومت لا اینڈ آرلار کی صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ ریاستی حکومت کے خلاف اب مرکزی حکومت کو کارروائی کرنے کی ضرورت آن پہونچی ہے ۔ عوام کی زندگیوں کو خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جائیدادو املاک کے نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ فوجی دستوں کی تعیناتی کے باوجود حالات میں کسی طرح کی بہتری پیدا نہ ہونا تشویشناک ہی کہا جاسکتا ہے ۔ دو ایک دن کی پرسکون صورتحال کے بعد اچانک ہی کشیدگی اور تشدد کے واقعات پیش آنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مرکزی و ریاستی دونوں ہی حکومتوں کے اقدامات اب تک موثر اور کارکرد ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ حکومت کو اپنے اقدامات اور حکمت عملی پر ازسر نوغور کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالات اگر متقاضی ہوں تو اس میں تبدیلی سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ جس طرح صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اسی طرح مرکزی و ریاستی حکومتوں کو بھی اپنے حکمت عملی بدلنی چاہئے ۔
جغرافیائی اعتبار سے اہمیت کی حامل شمال مشرق کی اس ریاست میں صورتحال کی مسلسل خرابی اورتشدد و کشیدگی ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتی ۔ اس پہلو کو نظر میں رکھتے ہوئے جامع منصوبہ تیار کرتے ہوئے حالات کو قابو میں کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ریاستی حکومت کی ناکامی کا اب خود مرکزی وزیر نے دعوی کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر ناکام ہوچکا ہے ۔ ہر ریاستی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کو بہر صورت برقرار رکھے ۔ جو عناصر لا اینڈ آرڈر میں بگاڑ کی وجہ بن رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ حالات کی خرابی کی وجوہات کا غیرجانبدارانہ انداز میں اور تمام طبقات کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے اور پھر سبھی کی رائے اور تجاویز حاصل کرتے ہوئے حالات بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ اب تک مرکزی حکومت نے بھی ریاست میں حالات بہتر کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ریاست کا دورہ بھی کیا ہے ۔ کئی اجلاس بھی منعقد کئے ہیں۔ عہدیداروں کو ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ ضروری اقدامات پر بھی زور دیا گیا ہے لیکن اب تک بھی صورتحال قابو میں نہیں کی جاسکی ہے ۔ حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہونے لگا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تشدد پر قابو پانے اور کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے جو پالیسی اختیار کی گئی تھی وہ کارکرد اور موثر ثابت نہیں ہو رہی ہے ۔ اس حقیقت کو قبول کیا جانا چاہئے ۔
ریاستی عہدیداروں ‘ متحارب گروپس کے نمائندوں اور سماجی اہم شخصیات سے مشاورت کرتے ہوئے سبھی کا اعتماد بحال کرنے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ تشدد کے ذمہ دار چاہے کو ئی بھی ہوں ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوستان جیسے ملک میں تشدد کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور نہ اس کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے ۔ متحارب فریقین کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مسائل کو بات چیت کی میز پر لائیں ۔ حکومت کو اپنی تجاویز پیش کریں‘ حکومت کی تجاویز کو قبول کریں اور ریاست میں امن و امان کو بحال کرنے میں اپنا سرگرم تعاون کریں۔ ایسا کرنا ان گروپس کا بھی فریضہ ہے ۔