حیدرآباد۔ موت کے وقت یا یو ں کہیں کہ جس وقت انسان کے جسم سے روج نکالی جاتی ہے اس وقت جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس ضمن میں اگرچہ ماہرین ایک عرصے سے غور کررہے ہیں اور تحقیقات کررہے ہیں لیکن 2018 میں پہلی مرتبہ انکشاف ہوا کہ دماغ میں ہونے والی عجیب و غریب تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے دماغی ٹوٹ پھوٹ اور اس سے ہونے والی دماغی موت کو پلٹانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ ہے کہ دماغ میں برقی کیمیائی (الیکٹروکیمیکل) جھکڑ چلتا ہے جس سے موت واقع ہوجاتی ہے۔لیکن خبر یہ ہے کہ اب چار سال بعد سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ دماغی موت کی وجہ بننے والی سونامی کو روکا بھی جاسکتا ہے لیکن یہ عمل ا?سان نہ تھا اور اس کا مشاہدہ سب سے پہلے جانوروں پر کیا گیا تھا۔جانوروں میں موت سیقبل صرف 20 سے 40 سیکنڈ پہلے دماغ کی ا?کسیجن ختم ہونے لگتی ہے۔ اب یہاں دماغ توانائی محفوظ کرنے والی حالت یا انرجی سیونگ موڈ میں چلاجاتا ہے۔ اس کے اندر برقی سرگرمی ماند پڑجاتی ہے اورعصبیوں (نیورون) کا باہمی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔چند منٹ بعد دماغی خلیات کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ اب اس موقع پر برق کیمیائی (الیکٹروکیمیکل) توانائی کی ایک لہر پورے دماغ میں دوڑتی ہے جسے سائنسدانوں نے دماغی سونامی قراردیا ہے جو قشر(کارٹیکس) تک جاتی ہے۔ اس کا ایک اور نامی ڈی پولرائزیشن بھی ہے۔ یہ کیفیت دماغ کی موت ہوتی ہے جسے کسی بھی صورت ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔اب جرمنی کے پروفیسر ینس درائیر نے نو مریضوں کو دیکھا جو شدید دماغی چوٹ کیباعث دواخانہ میں شریک ہوئے تھے۔ ان کے مطابق دماغ میں آکسیجن کا بہاؤ رک جانے کے بعد بھی اسے بحال کرکے دماغ کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔دماغی بہاؤ تھم جانے کے بعد دماغی خلیات میں جمع برق کیمیائی توانائی ایکدم خارج ہوتی ہے۔ اس کے بعد زہریلیمرکبات جمع ہوجاتے ہیں اور دماغ مرتا ہے جس کے بعد خود انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، پوفیسر ینس نے کہا۔ ایک نئی ٹیکنالوجی سب ڈیورل الیکٹروڈ اسٹرپس اینڈ انٹراپیرنکائمل الیکٹروڈ ایریز کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی بدولت مریض کے دماغ میں ڈی پولرائزیشن پرنظر رکھی جاسکتی ہے۔ اس تدبیر سے دماغ میں آکسیجن کو بحال کرکے سونامی کو ٹالا جاسکتا ہے۔دلچسپ بعد یہ ہے کہ پورے دماغ میں خلوی نقصانات کے بغیر ہی تباہ کن سونامی کو روکا جاسکتا ہے جو آکسیجن کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔اس اہم دریافت سے دماغ میں خون کی کمی اور فالج کے مریضوں کو بھی بحال کرنے میں اہم مدد مل سکے گی اور ایک دن یہ ایجاد قیمتی انسانی جانوں کو بچانے میں معاون ہوگی لیکن اس سے قبل نئی تکنیک پر تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہوگی۔