موجودہ ملکی حالات میں ایمانی نقطۂ نظر سے کرنے کے کام

   

انقلابات انسانی تاریخ کا حصہ ہیں،نیک کردار و پاکیزہ اطوار سے سماج نکھرتا اور سنورتا ہے ،اسی سے ایک صالح انقلاب رونما ہوتا ہے، جس سماج میں اخلاق و کردار گراوٹ کا شکار ہوں ،سماج کےمبنی برانسانیت تقاضے ،عدل وانصا ف ،برابری ومساوات ، آزادی ِ رائے کے اظہار کا حق جیسے اہم امور پس پشت ڈال دیئے گئے ہوںاوریہ سنہرے الفاظ صرف ڈکشنریوں کی زینت بنے ہوئے ہوںتو پھر انسانی سماج جنگل راج میں تبدیل ہوجاتا ہے، یہی وہ فساد و بگاڑ کے اسباب ہیں جن کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے ، یہ امت خیر امت ہے اس کا منصب ہی انسانی سماج کو الہیٰ فطری نظام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرناہےاور بحیثیت مجموعی اسلام کو اپنی ذات و خاندان اور ملت پر نافذ کرنے کے ساتھ اسلام او ر اسلام کی فطری پاکیزہ تعلیمات کو کرئہ ارض پر رہنے بسنے والوں کامقدر بنانا ہے تاکہ فاسد عناصر کی اصلاح ہو یا پھر قانونی گرفت سے ان پر روک لگے ، اور پھرعزت واحترام حق پرست با عزت ومحترم افراد کے سرکا تاج بنے اور جو اپنی بداعمالیوں و بدکاریوں کی وجہ ذلت کے مستحق ہیں ذلت و رسوائی کی کھائی ان کا مقدر بنے ، اس ذمہ داری کو پوری نہ کرنے کی وجہ انسانی سماج تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ، عزت کے حقدار وں کے گلے میں ذلت کے طوق پڑ گئے ہیں اور جو ذلت کے مستحق ہیںوہ عزت کے تخت و تاج پر براجمان ہیں ، اصطلاحی معنی میں اس کو قلب معکوس سے تعبیر کیا جاتاہے، اسی وجہ سے انسانی سماج حقیقی چین و سکون سے محروم ہے، نت نئے فتنے اور مصائب و آلام میں گھرا ہوا ہے ، ہر ایک کی تمنا ہے کہ دنیا پھر سے امن و آمان راحت و رحمت کا گہوارہ بنے، اس کی تکمیل کے لئے اسبابی درجہ کی چیزیں اختیار کرتے ہوئے سنجیدہ کوشش ضرور کریں لیکن ایمانی نقطہ نظر سے اسلامی پاکیزہ فطری تعلیمات پر یہ امت خود عمل پیرا ہوکر دوسروں تک اس پیغام کو نہ پہنچائے اور اسلام کے پاکیزہ اخلاق اور انسانی اقدار کو عملی زندگی میں برت کر اغیار کو گرویدہ نہ بنائے اس وقت تک اس تمنا کی تعبیر ہاتھ نہیں لگ سکتی ۔ایسا نہیں ہے کہ پہلے اس دنیا میں اہل حق پر مظالم نہ ڈھائے گئے ہوں او ران کو گھر و بارملک و وطن سے محرو م نہ کیا گیا ہو،باطل ہمیشہ حق سے برسر پیکار رہا ہے ،باطل کے غلبہ نے حق کی آواز کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی ہے، تاریخ میں وہ سنہرے ادوار بھی درج ہیں کہ سارے عالم میں معرفت ربانی وپیغام آسمانی کی طرف دعوت دینے والے انبیاء کرام ومرسلین عظام علیہم التحیۃوالسلام بھی امتحان و آزمائش سے دوچار ہوئے ہیں،باطل پرست انسانی سماج نےپیغا م حق کوقبول کرنے کے بجائے ہمیشہ اسکو مسترد کیا ہے اور ان کواس بات کی دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے داعیانہ منصب سے دستبردار ہوجائیں ورنہ وہ گھر بار ملک و وطن چھوڑنے کیلئے تیار ہوں،یا پھر باطل اعتقادات اور باطل افکار و نظریات کوقبول کرکےباطل کے رنگ میں خود کو رنگ لیں،تاریخ انسانیت اس بات کی گواہ ہے کہ باطل پرستوں کو دعوت غور وفکر دینے والے حق پرستوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے ،اس صورتحال میں انبیاء اکرام علیہم السلام پر حق سبحانہ نے وحی نازل فرمائی اور ان کی مدد و نصرت اور کرئہ ارض پر ان کو عظمت و بلندی اور بالادستی عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا اس وعدہ میں دعوت حق کا پیغام دینے والےحق پرست بھی شامل ہیں۔ ’’ہم تم کو ملک بدر کردیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آئو ‘‘تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی ہم ان ظالمو ں کو ہی ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے ۔ یہ ان کے لئے ہے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیںاور میری وعید سے خوف زدہ رہیں۔ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحٰى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ * وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الأرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ (ابراہیم:۱۳/۱۴)
یہ مضمون اللہ سبحانہ نے متعد د مقامات پر بیان فرمایا ہے ۔(الاعراف /۱۲۸۔۱۷۳، الانبیاء /۱۰۵، الصافات/۱۷۱۔ ۱۷۳۔المجادلہ /۲۱، النازعات/۴۰۔۴۱)یہی کچھ صورتحال اب کرئہ ارض پر دیکھی جارہی ہے ، ہمارے ملک میں بھی موجودہ حکومت نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے کئی ہتھکنڈے آزمالیئےہیں جس میں گھر واپسی کی مہم بھی تھی اور اب غیر آئینی بلکہ غیر انسانی قوانین کے نفاذ کی جسارت بیجا سے مسلمانو ں اور اقلیتوں کو ان کے بنیادی شہری حقوق سے محروم کرنے کی ناپاک سازش رچی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے ہی وطن میں بے گھر و بے وطن ہوجائیں،یہی وہ امتحان و آزمائش ہے جو اس وقت عالمی و ملکی سطح پر ملت اسلامیہ کو درپیش ہے ،لیکن باطل کی بساط ہی کیا ہےکہ وہ اس سازش میں کامیاب ہوجائےجب تک کہ ساری کائنات کا خالق و مالک نہ چاہے،باطل کی اس سازش کو ناکام کرنے کا واحد راستہ یہی ہے جس کی حق سبحانہ و تعالیٰ نے رہبری کی ہے ، جس میں ایمان والوں کیلئے بڑی طمانیت کا سامان ہے اور و ہ طمانیت اسی آیت پاک میں فاوحیٰ الیہم سے لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيْدِ سے بیان فرمائی گئی ہے ۔اللہ سبحانہ نے ان انبیاء کرام علیہم السلام کو تسلی بخشی کہ وہ تم کو ڈراتے اور دھمکاتے ہیںکہ تم کو ملک بدر کریں گے لیکن ان خدا بیزار اور آخرت فراموشوں کو اس کی کہاں قدرت ہم تو خود ان کو ہلاک کردیں گے یعنی دنیا بدر کردیں گے یہ وعدہ انبیاء اکرام علیہم السلام ہی کیلئے خاص نہیں ہےبلکہ قیامت تک آنے والے تمام ان حق پرستوں کیلئے ہے جو آیت پا ک کے آخری جز ء ’’یہ ان کے لئے ہے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیںاور میری وعید سے خوف زدہ رہیں‘‘کی عملی تفسیر بنیں ،آج بھی حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی رحمتیں نچھاو ر فرمانے کیلئے تیار ہے ،اور وہ رب کائنات آج بھی مائل بہ کرم ہے ،لیکن اس سخت ترین امتحان و آزمائش میں گھر جانے کے باوجود یہ امت آیت پاک کے آخری جز ء میںجو مشروط بشارت و خوش خبری سنائی گئی ہے ،اس کے حصول کیلئے شرط کی تکمیل کیلئے عملاً آمادہ نہیں ہے ، قرآ ن پاک میں متعدد مقامات پر حق پرستوں کی نصرت کا وعدہ ہے بشرطیکہ وہ ایمان پر قائم رہیں اور اس کے تقاضوں کو پور ا کریں ، چنانچہ یہ ارشاد باری تعالی بھی امت مسلمہ کیلئے تسکین خاطر کا باعث ہے ، ’’تم دل شکستہ نہ ہوںاورحزن وغم میں مبتلا نہ ہوں تم ہی سربلند رہو گے ،اگر تم مومن ہو‘‘( آل عمرا ن/۱۳۹) اس آیت پاک میں مصائب و آلام کے حل کا نسخہ تجویز کیا گیا ہے ، خالق کائنات کا وعدہ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا ،پیغام حق کی یہ امت جب تک عملاًامین نہ بن جائے اس وقت تک اس بشارت کی مستحق نہیں ہوسکتی ،غیر جمہوری قوانین سی اے اے ، این آرسی ، این پی آر، کیا چیز ہیںامتحان و آزمائش کے بڑے بڑے طوفان تھم سکتے ہیں، باطل کے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ کر ہوا میں بکھرسکتے ہیں، لیکن یہ امت اپنے رب کو راضی کرلے پھر کیا مجال کہ باطل اپنے ناپاک عزائم سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کرے، چند احکا م و عبادات کی پابندی وہ بھی امت کے چند افرادسرانجام دیں،باطل افکار و نظریات ناروا رسوم و رواجات مغربی غیر اسلامی تہذیب و ثقافت کو گلے سے لگائے رکھیں ،کاروبار و تجارت اور معاملات میں جھوٹ و دھوکہ دہی سے باز نہ آئیں ، مساجد کو مقاصد دین کی تکمیل کے بجائے شخصی و جماعتی اناپسندی ،خود پسندانہ نظریات و اعمال کی تکمیل کے مراکز بنائیں اور اپنے فروعی نظریات اور خود ساختہ افکار و اعمال کے حدود وقیود میںمساجد کومحصوررکھیں ، مال و دولت کے کمانے اور اس کے خرچ کرنے اور زندگی گزارنے کےطور طریق میں جائز و ناجائز کی پرواہ نہ کریں ، اپنی بہن ،بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور ملازمتوں کے مخلوط غیر اسلامی نظام پر دل میں نہ کوئی کھٹک محسوس کریں اور نہ پیشانی پر کوئی شکن آئے ،غیر اسلامی طرز معاشرت دلوں کورنجیدہ و بے چین نہ کرے، بحیثیت مجموعی بے پردگی و بے حجابی کا چلن عام ہوجائےکہ خواتین حیاء کے تقاضوں سے عاری رہیںاور مردوں کی غیرت موت کی نیند سوجائے ،شادی بیا ہ کی تقاریب کے انعقاد میں اسراف و فضول خرچی ،ریا و دکھاوے،بیانڈ باجے ،ناچ گانے اور غیر اسلامی رسومات کی پابندی جیسے منکرات خوشی خوشی قبو ل کرلئے جائیں،ویڈیو ،فوٹو گرافی خاص طور پر خواتین کے بے حجابانہ فیشن زدہ نیم برہنہ ملبوسات ،کھلے بال اور برہنہ سر ،ضرورت سے زیادہ بنائو سنگارکی حالت میں مرد فوٹو گرافرس وو یڈیو گرافر س کی خواتین کے گوشہ میں بے کھٹک آمد اور اس کی عکس بندی و فلم بندی پرایمانی حرارت جوش میں نہ آئے حاصل کلام یہ کہ اسلامی شعاراور تہذیب وتمدن آنکھوں کو نہ بھائے بلکہ غیر اسلامی وضع قطع ہی محبوب بن جائے غرض مسلم سماج کس قدر مجروح و زخم خوردہ ہے اس کو کہاں تک دکھایا جائے ان سب کے باوجود کیا اللہ سبحانہ ہم سے راضی ہوجائیں گے اور میدان بدر کی طرح کیا ہماری مدد کیلئے رحمت کے فرشتے نازل ہوں گے ؟افسوس اس بات کا ہےکہ اسلام دشمن طاقتوں کے غیر انسانی مظالم، تشدد و سفاکیت کے روح فرسا مناظر کے عکوس جو عصری ذرائع ابلاغ سے سارے انسانوں تک پہنچ رہے ہیں، وہ بھی ہم کو خواب غفلت سے بیدار نہیں کرپارہے ہیں،بقول کسے ’’وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘کے مصداق ملت اسلامیہ کے اکثر افراد و خاندانوں کے وہی لیل و نہار ہیں ان حالات میں ہم اگر اللہ سبحانہ کی مدد و نصرت چاہتے ہیں تو دل کے آئینوں سے غفلت کے گرد و غبار کو دور کرلیں سچے دل سے توبہ واستغفار کرکےنافرمانی کے دا غہائے سیاہ سے قلب و روح کو پاک کرلیں اور اپنے احوال کی اصلاح سے اپنی روح کے رخ کو روشن و تاباں کرلیں ۔ اس طرح اپنی انفرادی وخاندانی اصلاح اور پوری دردمندی و جگر سوزی کے ساتھ اجتماعی اصلاح و درستگی کی منصوبہ بندفکر کریں ،اور اس کے اچھے نتائج و ثمرات پانے کے لئے سراپا دعوت و عزیمت کا پیکر بنیںاور شب و روزاس میں کامیابی کی دعا کریں ۔ ان شاء اللہ تاریخ پھر اپنے آپ کو دہراسکتی ہےاور ایک صالح انقلاب کرئہ ارض پر برپا ہوسکتا ہے۔