مودی اور امیت شاہ کی تلنگانہ پر نظر، ہر ہفتہ ہندوتوا ایجنڈہ کا جائزہ

   

شہروں کے ناموں کی تبدیلی اور ہر حلقہ میں رام مندر ، گھر گھر پہنچ کر زعفرانی تنظیموںکا پرچار

حیدرآباد ۔ 3 ۔ اپریل (سیاست نیوز) یوں تو لوک سبھا چناؤ ملک بھر میں ہوگا لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو صرف تلنگانہ سے دلچسپی کیوں ہے ؟ سیاسی مبصرین اور بی جے پی قائدین کی اس بارے میں رائے مختلف ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ جنوبی ہندوستان میں داخلہ کیلئے تلنگانہ اہم راستہ بن سکتا ہے ، لہذا بی جے پی نے تلنگانہ کی 10 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کیلئے اپنی طاقت جھونک دی ہے۔ سیاسی اعتبار سے بھلے ہی مبصرین کی رائے درست ہو لیکن بی جے پی قائدین کی مانے تو صورتحال کچھ اور ہی دکھائی دے گی ۔ بی جے پی قائدین کا دعویٰ ہے کہ تلنگانہ میں ہندوتوا ایجنڈہ کی تشہیر میں بڑی حد تک مدد ملی ہے، لہذا پارٹی کی قومی قیادت نے جنوبی ہند میں زعفرانی پرچم لہرانے کیلئے تلنگانہ کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حوصلے اسمبلی چناؤ کے نتائج کے بعد بلند ہوچکے ہیں۔ 8 اسمبلی حلقہ جات میں کامیابی کے ذریعہ بی جے پی قانون ساز اسمبلی میں دوسری بڑی اپوزیشن کا موقف اختیار کرچکی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اطلاعات کے مطابق ہر ہفتہ تلنگانہ کی صورتحال پر سروے رپورٹ طلب کر رہے ہیں۔ سروے رپورٹ کی بنیاد پر انتخابی حکمت عملی اور ایجنڈہ کو قطعیت دی جارہی ہے ۔ شمالی ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کو کمزور کرتے ہوئے نر یندر مودی نے بی جے پی کیلئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے خلاف حالیہ کارروائیوں میں عوام میں مرکزی حکومت کے خلاف ناراضگی میں اضافہ کردیا ہے ۔ بی جے پی قیادت ہندوتوا ایجنڈہ کیلئے نئے پلیٹ فارم تلاش کر رہی ہے ۔ تلنگانہ جو فرقہ واریت کے اعتبار سے ایک محفوظ ریاست تصور کی جارہی تھی، وہاں بھی بی جے پی نفرت کا زہر گھولنا چاہتی ہے۔ اسمبلی چناؤ کی مہم میں آر ایس ایس اور دیگر زعفرانی تنظیموں نے گھر گھر پہنچ کر رائے دہندوں کو قسم دلائی تھی کہ وہ ہندوستان میں ہندو مذہب کے تحفظ کیلئے بی جے پی کو ووٹ دیں۔ ہندو اکثریتی ملک ہونے کے باوجود بی جے پی ہندوؤں اور ہندو مذہب کو خطرہ کا نعرہ لگا رہی ہے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق لوک سبھا چناؤ کی انتخابی مہم کے تحت بی جے پی تلنگانہ کے اہم شہروں میں کے مسلم نام تبدیل کرنے کے منصوبہ سے رائے دہندوں کو واقف کرانے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ شہروں اور اداروں میں مسلم ناموں کو حذف کرنے کے علاوہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو نریندر مودی کے کارنامہ کے طور پر اکثریتی رائے دہندوں میں پیش کیا جائے گا ۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں شہروں اور علاقوں کے ایسے تمام نام تبدیل کردیئے گئے جن میں مسلم شامل تھا۔ حالیہ عرصہ میں مہاراشٹرا کے اورنگ آباد کا نام بھی تبدیل کردیا گیا ۔ بی جے پی نے تلنگانہ میں حیدرآباد ، سکندرآباد ، محبوب نگر ، نظام آباد ، عادل آباد ، آصف آباد جیسے اضلاع کے علاوہ عثمانیہ یونیورسٹی کے نام کی تبدیلی کو ایجنڈہ میں شامل کیا ہے ۔ 10 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کی صورت میں مرکزی حکومت پر ناموں کی تبدیلی کیلئے دباؤ بنایا جائے گا اور خصوصی اختیارات کے ذریعہ مرکزی وزارت داخلہ ناموں کی تبدیلی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیگر پارٹیوں میں موجود بعض قائدین کو ناموں کی تبدیلی کے سلسلہ میں ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جہاں تک رام مندر کی تعمیر کا معاملہ ہے ، بی جے پی ہر لوک سبھا حلقہ میں ایودھیا طرز کی مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کرے گی۔ لوک سبھا چناؤ میں کامیابی کے لئے بی جے پی نے اگرچہ اپنا ایجنڈہ برسر عام نہیں کیا ہے لیکن ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ گھر گھر پہنچ کر خفیہ انداز میں مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ موجودہ حالات اور بی جے پی کا نفرت پر مبنی ایجنڈہ سیکولر جماعتوں کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ سیکولر پارٹیاں بھلے ہی اپنے طور پر مقابلہ کریں لیکن ہر رائے دہندہ پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ تلنگانہ کو نفرت کی سیاست سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ 1
سیکولر رائے دہندوں کے علاوہ مسلم رائے دہندوں میں شعور بیداری کی ضرورت ہے کیونکہ رائے دہی کے معاملہ میں ذرا سی غفلت بھی مستقبل میں پچھتاوے کا سبب بن سکتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی رائے دہی کے فیصد میں اضافہ ہو اور فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کی صلاحیت رکھنے والے امیدواروں کے حق میں متحدہ ووٹنگ کی جائے ۔ 1