مودی ‘ تیسری میعاد اور اپوزیشن

   

خود اپنے آپ پر نہیں کوئی اختیار مجھے
زمانہ پھر بھی سمجھتا ہے برسر اقتدار مجھے
مرکز میں وزیر اعظم نریندرمودی نے تیسری میعاد کیلئے عنان اقتدار سنبھال لیا ہے ۔ وہ تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لے چکے ہیں۔ حالانکہ بہت گوشوں کا خیال ہے کہ یہ اقتدار کا تسلسل ہے اور زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مودی کی ابتدائی دو میعادوں کے بعد اب جو تیسری میعاد آئی ہے اس میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے اور آگے بھی بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے ۔ مودی کی پہلی اور دوسری میعاد میں وہ کامل اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بنے تھے ۔ بی جے پی نے دو بار بھی اپنے بل پر اکثریت حاصل کرلی تھی ۔ اس کے باوجود دو میعادوں میں کبھی مرکزی حکومت کو بی جے پی یا این ڈی اے حکومت نہیں کہا جاتا تھا بلکہ مودی حکومت کہا جاتا تھا ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی تھی کہ ساری حکومت صرف مودی کی وجہ سے ہے ۔ بی جے پی کا اقتدار بھی صرف مودی کی وجہ سے ہی ہے اور اگر مودی کو حذف کردیا جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا ۔ پہلی میعاد میں مرکزی حکومت نے بی جے پی کی سادہ اکثریت کے ساتھ کام کیا تھا اور اپنے منصوبوں اور عزائم کو تکمیل تک پہونچانے کیلئے بنیادی کام کئے تھے ۔ دوسری میعاد میں بی جے پی کو 300 سے زائد نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور اس میعاد میں مرکزی حکومت محض نریندر مودی اور امیت شاہ تک سمٹ کر رہ گئی تھی ۔ پوری من مانی اور آمرانہ طرز سے حکومت چلائی گئی ۔ پارلیمنٹ میں قانون سازیاں بھی کھیل کود کی طرح کی گئیں۔ کسی بھی اہم ترین قانون سازی کیلئے بھی ایوان میں مباحث نہیں کروائے گئے ۔ ندائی ووٹ سے اہم قانون منظور کئے گئے ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اکثریت حاصل ہے تو مباحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ حکومت کے اس طرز عمل سے جہاں اپوزیشن نالاں تھی وہیں خود بی جے پی کے کئی قائدین زبان کھولنے سے خوف محسوس کرتے تھے ۔ کئی قائدین کو زبان بند رکھنے پر مجبور کیا گیا تھا ۔ اب جبکہ تیسری میعاد کیلئے مودی وزیر اعظم بنے ہیں تو اس بار ایسا لگتا ہے کہ مودی اور امیت شاہ اپنی من مانی شائد نہیں کر پائیں گے کیونکہ بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے اور مرکز میں بی جے پی کی نہیں بلکہ این ڈی اے کی حکومت ہے جس کا استحکام چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار پر منحصر ہے ۔
جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے تو اپوزیشن نے نریندر مودی کی ابتدائی دونوں ہی میعادوں میں عوامی مسائل کو اٹھانے اور ان پر حکومت کی توجہ مبذول کروانے کی اپنے طور پر کوشش ضرور کی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کوشش قدرے کمزور رہی تھی ۔ اپوزیشن کو اپنی عددی طاقت کا اندازہ تھا اسی لئے شائد حکومت پر اثر انداز نہیںہواجاسکا ۔ ایک طرف حکومت کی عددی طاقت زیادہ تھی تو دوسری طرف اپوزیشن کی عددی طاقت کم رہ گئی تھی ۔ اب تیسری میعاد میں اپوزیشن کی عدددی طاقت میں اضافہ ہوا ہے تو حکومت کی عددی طاقت بھی گھٹ گئی ہے ۔ اس طرح ایوان میں توازن بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ مودی کی تیسری میعاد میں اپوزیشن کیلئے موقع ہے کہ وہ اپنی عددی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی مسائل پر حکومت کو گھیرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو عوام میں پیش کرنے میں پس و پیش کا شکار نہ ہو بلکہ پوری شدت کے ساتھ پارلیمانی روایات اور جمہوریت کے تقاضوں کی تکمیل کیلئے جدوجہد کرے ۔ اپوزیشن کو اب اپنی کمزوری کے احساس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام نے اسے جو ذمہ داری سونپی ہے اس کی تکمیل ہوسکے اور حکومت کو عوامی مسائل پر غور و فکر کرنے پرمجبور کیا جاسکے ۔ سابقہ میعادوں میں دیکھا گیا ہے کہ حکومت نے کبھی بھی اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لایا ہے ۔ اس کی تجاویز کو کوڑے دان کی نذر کردیا گیا اور کسی بھی مسئلہ پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ اپوزیشن نے حکومت کے اس رویہ اور طرز عمل کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
اب جبکہ ایوان میںتوازن بحال ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن کی صفوں میں واضح استحکام پیدا ہوا ہے اور حکومت کو اپنی حلیفوں کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے تو اب اپوزیشن کو بھی اپنی اہمیت کا بھی اندازہ کروانا چاہئے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف پارلیمانی کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرتے ہوئے ہی اپوزیشن اپنے وجود کا احساس دلاسکتی ہے بلکہ پارلیمنٹ میں کام کاج کو موثر ڈھنگ سے چلانے میں اپوزیشن کو سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ پارلیمانی روایات اور جمہوری اصولوںکو یقینی بنانے کیلئے حرکت میں آنا چاہئے ۔ حکومت کی عددی طاقت یا اکثریت کے رعب کا شکار ہوئے بغیر عوام نے انہیں جو ذمہ داری سونپی ہے اس کی تکمیل کیلئے کمربستہ ہونا چاہئے ۔ اپوزیشن کیلئے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ اپنے وجود کا احساس دلائے اور حکومت کو گھیرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھے ۔
دہلی میں آبی بحران
قومی دارالحکومت دہلی میں آئے دن تنازعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے اور مرکز میں بی جے پی اقتدار میں ہے ۔ دہلی کا عنان اقتدار جہاں عام آدمی پارٹی کے ہاتھ میں ہے وہیں کئی امور اب بھی مرکز کے تحت آتے ہیں۔ دہلی میں کبھی فضائی آلودگی کا مسئلہ درپیش تھا تو کبھی کوئی اور مسئلہ رہا ہے ۔ ان دنوں پانی کا بحران پایا جاتا ہے ۔ دہلی میں آبی ذخائر شہر کی ضروریات کی تکمیل کیلئے کافی نہیںسمجھے جاتے ۔ ایسے میں پڑوسی ریاستوں اور شہروں سے دہلی میں پانی کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اس بار جہاں موسم گرمی انتہائی شدید رہا ہے اور ہلاکت خیز بھی ثابت ہوا ہے ایسے میں پانی کی قلت کا پیدا ہونا فطری اور لازمی بات تھی ۔ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی ہر عوامی مسئلہ کو سیاسی عینک سے دیکھنے کے عادی ہوگئی ہے ۔ جہاں کہیں مسئلہ ہوتی ہے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک دوسرے کو عوامی نظروں میں کمتر بنانے پر ساری توجہ مرکوز کردی جاتی ہے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ایک دوسری کی سیاست مخالف ہوسکتی ہیں لیکن انہیںاس کو آپسی دشمنی یا مخاصمت کا رنگ نہیں دینا چاہئے ۔ مسئلہ چاہے جیسا بھی ہو اس کی وجوہات چاہے جو کچھ بھی ہوں اس کی یکسوئی کیلئے دونوں ہی جماعتوں اور حکومتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کی تجاویز کا احترام کرتے ہوئے ایسا کوئی حل دریافت کیا جانا چاہئے جس سے دہلی کے عوام کو راحت ملے ۔ بنیادی ضروریات کے مسئلہ پر بھی سیاست کرنا انتہائی مذموم فعل ہے اور اس سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے ۔