مودی حکومت ، آزادی ٔ صحافت کی دشمن ،آئینہ دِکھانے پر دھاوے

   

روش کمار
اگر آپ حکومت سے کسی بھی معاملہ یا پھر اس کی ناکامیوں و خامیوں کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے تنقید کا نشانہ کے خواہاں ہوں تو سب سے پہلے ایک چیز ضرور کرلیں۔ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور ڈائریکٹر آف (ایکسٹراڈیشن جسے ED) بھی کہا جاتا ہے اس کے عہدیداروں سے دریافت کرلیں کہ کتنا لکھنے پر دھاوے کئے جاتے ہیں اور کتنا نہ لکھیں کہ دھاوے نہ کئے جائیں۔ ابھی تک تو یہ دیکھا گیا ہے کہ انتخابات کے دوران ہی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور ان سے جڑے لوگوں کے مکانات و دفاتر پر انکم ٹیکس اور ای ڈی کے عہدیدار دھاوے کرتے آئے ہیں، لیکن ان دِنوں ہمارے ملک میں یہ حال ہوگیا ہے کہ حکومت کے خلاف خبر شائع کرنے اور دکھانے (پیش کرنے) پر بھی دھاوے کئے جارہے ہیں۔
لفظ ایمرجنسی اس قدر زیادہ استعمال ہوچکا ہے کہ آپ اس کا استعمال کرتے ہوئے کچھ کہہ نہیں پاتے۔ اب وقت بدل گیا ہے، وقت بھی کئی اشکال میں ہمارے سامنے آرہا ہے۔
کورونا کی دوسری لہر کے دوران انگریزی اور ہندی اخبارات میں ’’دینک بھاسکر‘‘ ایسا واحد اخبار رہا ہے جس نے کورونا قتل عام کے بارے میں حکومت سے اپنے سخت سوال کئے کہ وہ تلملا اٹھی۔ ’’دینک بھاسکر‘‘ نے ان تمام چیزوں سے پردہ ہٹا دیا۔ حکومت جن پر پردہ ڈالنے کی پوری پوری کوشش کررہی تھی۔ اس اخبار نے کورونا اموات کے بارے میں حکومت کی ناکامیوں کو اپنی رپورٹس کے ذریعہ بے نقاب کردیا) وباء کے دوران جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی اموات ہوئیں۔ ’’دینک بھاسکر‘‘ کے صحافیوں نے صرف حقیقت پر مبنی بہترین رپورٹنگ کی بلکہ وباء کی رپورٹنگ کے نئے پہلوؤں کا اضافہ کیا۔
بھاسکر گروپ کے گجراتی اخبار ’’دیویا بھاسکر‘‘ نے جب کورونا کی دوسری لہر میں مرنے والوں سے متعلق سرکاری اعداد و شمار پیش کئے تب میڈیا کی کئی عالمی تنظیموں و اداروں نے بھاسکر کی جانب دیکھا اور اپنی رپورٹس میں اس کے اعداد و شمار کے حوالے دیئے۔ ذرائع ابلاغ کے ان عالمی اداروں میں امریکہ کے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ سے لے کر دوسرے کئی مشہور و معروف ادارے شامل تھے۔ اسی طرح محققین نے بھی بھاسکر کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا کہ ہندوستان میں کورونا وائرس سے کتنی زندگیوں کا اتلاف ہوا۔ ان اداروں کا کہنا تھا کہ حکومت نے کورونا اموات کی جو تعداد بتائی ہے، غلط ہے، اسی تعداد سے کئی گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں، دیانت دارانہ و بے باکانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ رپورٹنگ کرنے کا صلہ ’’دینک بھاسکر‘‘ کو کیا ملا، انکم ٹیکس اور ایکسٹراڈیشن (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) ڈپارٹمنٹ نے دھاوے کئے۔
گودی میڈیا کے اس دور میں قارئین اور صحافی تمام کے تمام اس بات پر حیران رہ گئے کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران ’’دینک بھاسکر‘‘ کے ساتھ کیا ہوا؟ اُس نے کیسے حکومت کی کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ’’دینک بھاسکر‘‘ کے ساتھ گجرات کے اخبارات جیسے ’’گجرات سماچار ‘‘، ’’سندیش‘‘، ’’سوراشٹر سماچار‘‘، ’’کچ سماچار‘‘ نے بھی بڑے کھلے اور بے بیکانہ انداز میں رپورٹنگ کی۔ آپ کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی ہندی اخبارات میں اس جاسوسی سافٹ ویئر کے افشاء کے پہلے دن اس سے متعلق خبر شائع نہیں کی گئی، اس کی وجہ ہم سب بہتر جانتے ہیں، بے شمار ہندی اخبارات نے اگرچہ پیگاس جاسوسی ویئر کی خبر شائع نہیں کی لیکن بھاسکر جیسے ہندی اخبار نے پہلے ہی دن اس بارے میں صفحہ اول پر تفصیلی رپورٹ پیش کی اور اس کے بعد بھی بھاسکر نے صفحہ اول پر شائع کی گئیں خبروں کو حذف نہیں کیا۔ ہاں آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہوگا، کوئی بھی بھاسکر کی اس جارحانہ سرخی کو نظرانداز نہیں کرسکتا جو اس نے دوسری لہر میں لگائی تھی۔ سورت کے رکن پارلیمنٹ سی آر پاٹل کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ریمڈیسور موجود ہے اور عوام اس دوا کیلئے رو رہی ہے۔ ’’بھاسکر‘‘ نے سی آر پاٹل کے اس بیان کا نوٹ لے کر اخبار میں رکن پارلیمنٹ کا فون نمبر شائع کردیا تاکہ Remedisiver دوا کے حصول کیلئے عوام انہیں راست کال کرسکیں۔ ’’بھاسکر‘‘ نے اپنے کئی جرأت مندانہ تجربات کئے۔ ایسے تجربات کوئی بھی میڈیا آرگنائزیشن یا ادارے کو اس وقت یا کسی بھی وقت کرنا چاہئے تھا۔ آپ کو بتادوں کہ دو یا بھاسکر دراصل’’بھاسکر‘‘ کا گجراتی ورژن ہے اور اس کا صفحہ اول غیرگجراتیوں میں بہت زیادہ شیر کیا جانے لگا لیکن ’’بھاسکر‘‘ کی رپورٹنگ صرف کسی ایک حکومت تک محدود نہیں ہے۔ اس کے نامہ نگار سورت سے لے کر جئے پور، بھوپال سے لے کر آلہ آباد اور لکھنؤ سے لے کر پٹنہ تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان لوگوں نے آخری رسومات کی انجام دہی سرکاری اسپتالوں کے مردہ خانوں اور اموات کے اندراج کی بہت گہرائی سے جانچ کی۔ ’’بھاسکر‘‘ نے صرف بی جے پی حکومتوں کے خلاف ہی نہیں لکھا بلکہ راجستھان میں جہاں کانگریس حکومت ہے، اس کے خلاف بھی لکھا۔ پٹنہ میں ’’بھاسکر‘’ کے رپورٹر نے بے شمار شمشان گھاٹوں اور مواضعات کا دورہ کیا اور بتایا کہ اموات سے متعلق جو اعداد و شمار ہے۔ وہ درست نہیں ہیں بلکہ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں گنا زیادہ ہے۔ سمجھا جاتا ہے ’’بھاسکر‘‘ کے رپورٹرس کی رپورٹنگ کے نتیجہ میں ہی ریاستی حکومت کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد تبدیل کرنے پر مجبور ہوتی۔ وہ ایسا وقت تھا جب ہر کسی کی یہ ذمہ دار تھی کہ وہ حقیقی اعداد و شمار منظر عام پر لائے تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ ان کی زندگیوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
جرأت مندانہ رپورٹنگ کے معاملے میں ’’بھاسکر‘‘ کے سامنے کئی ہندی اخبارات پھینکے پڑگئے۔ وہ بھاسکر سے بہت پیچھے تھے۔ چند ہندی اخبارات نے لکھا ضرور لیکن ان میں بھی خوف و دہشت بہت زیادہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ’’بھاسکر‘‘ کے اداروں پر دھاوے کئے گئے۔ یقیناً حکومت ان دھاوؤں کو منصفانہ قرار دینے کیلئے لاکھ وجوہات پیش کرے گی لیکن یہ صرف حسن اتفاق ہرگز نہیں ہوسکتا۔ آج کوئی بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ بھوپال بھاسکر نے ایک خبر شائع کی جس میں لکھا گیا ہے کہ حکومت مدھیہ پردیش کا دعویٰ ہے کہ ریاست میں آکسیجن کی قلت سے کوئی موت نہیں ہوئی ہے، لیکن ساتھ ہی اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ 15 واقعات میں 60 افراد آکسیجن نہ ملنے کے باعث اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ اس طرح کی رپورٹنگ کے ساتھ ہی لوگ اس بات کی چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے کہ اب بہت جلد بھاسکر کے اداروں پر دھاوے کئے جائیں گے۔ ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ جہاں ’’دال میں کچھ کالا‘‘ ہوتا ہے۔ وہاں دھاوے کئے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت ، میڈیا گھرانوں پر اس وقت دھاوے کیوں کرتی ہے جب میڈیا حکومت سے سوالات کرنے لگتا ہے۔ حکومت کے جھوٹ کو چیلنج کرنا شروع کردیتا ہے۔ کیا اس بات کا اطلاق گودی میڈیا پر بھی ہوسکتا ہے جو صرف اور صرف حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا کام کرتی ہے۔ جب رافیل لڑاکا طیاروں کی معاملت میں کرپشن کی خبریں شائع ہوئیں تب حکومت نے اس کی تحقیقات نہیں کی۔ جب ڈاکٹروں نے پی ایم کیرس فنڈس کے تحت دیئے گئے وینٹی لیٹرس کے ناکارہ ہونے پر سوالات اُٹھائے پھر بھی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ صحافیوں نے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائی اور کسی سرکاری ایجنسی نے اپنا کام نہیں کیا۔ جب صحافیوں کی جاسوسی کی گئی ، حکومت نے تحقیقات سے گریز کیا۔ حد تو یہ ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کی بے بسی پر بھی حکومت بے حس بنی رہی تو ایسے میں حکومت کی ایجنسیاں صرف اس وقت کیوں کام کرتی ہیں جب بعض اخبارات یا ٹی وی چیانلس کچھ کام کرنا شروع کرتے ہیں، حکومت کی ناکامیوں کو آشکار کرتے ہیں۔
21 جولائی کو آیوش تیواری اور بسنت کمار کی رپورٹ ’’نیوز لانڈری‘‘ ویب سائٹ میں شائع ہوئی۔ یہ رپورٹ دراصل آر ٹی آئی کی بنیاد پر تحریر کی گئی تھی اور ڈی ڈی نیوز جرنلسٹ اوما شنکر دوبے کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ’’نیوز لانڈری‘‘ کی اُس رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ اپریل 2020ء اور مارچ 2021ء کے درمیان اُترپردیش کی حکومت نے مختلف نیوز چیانلوں کو 160 کروڑ روپئے کے اشتہارات دیئے اور یہ ایسے نیوز چیانلس تھے جنہوں نے حکومت کی ناکامیوں پر سوالات اٹھانے سے گریز کیا تھا۔ اگر حکومت، صحافت کی تائید و مدد کرتی ہے تو وہ اُن ٹی وی چیانلس کو بھی اشتہارات دیتی، جنہوں نے اس کے اقدامات پر سوال اٹھائے تھے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں صحافت کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ اشتہارات دیتے ہوئے اسے خاموش کرنا شامل ہے۔ سرکاری ایجنسیوں کا اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو توڑنے کیلئے استعمال کیا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ مکل رائے اس کی بہترین مثال ہے۔ پہلے ان پر اسکام میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا، پھر بی جے پی میں شامل کیا گیا اور پارٹی کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت، کس طرح سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کررہی ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ مودی حکومت، صحافیوں، اپوزیشن قائدین، سماجی جہد کاروں، وکلاء اور اعلیٰ عہدیداروں کے فونس کی جاسوسی کے اقدامات میں گھری ہوئی ہے، صحافتی اداروں پر ای ڈی اور انکم ٹیکس کے دھاوؤں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس سمت میں کس طرح آگے بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں ہندوستانی صحافتی اداروں کو اُسی طرح کے اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس طرح 16 اگست 2018ء کو اُس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالف میڈیا روش کے خلاف 300 سے زائد امریکی اخبارات نے متحد ہوکر ایک ہی نام سے مہم چلائی تھی۔ اس دن ان تمام اخبارات نے ٹرمپ کی جانب سے آزادیٔ صحافت کو کچلنے جانے سے متعلق اداریے تحریر کئے تھے۔