لب پہ ہچکی بھی ہے تبسم بھی
جانے ہم کس سے مل رہے ہیں گلے
بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندرمودی کیلئے ملک کے موجودہ حالات چیلنج سے بھرپور ہیں۔ مودی حکومت اس وقت ایسے سنگین مسائل میں محصور ہوئی ہے کہ اسے اب کوئی بھی مسئلہ ناقابل فہم معلوم ہونے لگا ہے۔ مہنگائی کی سونامی کارخ درست نہ ہوا تو حکومت کے خلاف ناراضگیوں میں اضافہ ہونے لگے گا۔ مہنگائی اور معیشت کی ابتری کی سونامی کے ساتھ آنے والی زرخیز مٹی سے اپوزیشن کی مرجھائی ہوئی فصلیں دوبارہ سرسبز ہوجائیں گی۔ سابق وزیرفینانس پی چدمبرم نے آئی این ایکس کیس میں 106 دن کی جیل کاٹنے کے بعد رہائی کے فوری بعد ملک کی معیشت کے حوالہ سے مودی حکومت کو نشانہ بنایا تو ان کی تنقیدوں کا تیر سیدھے مودی حکومت کی ناقص کارکردگی پر جا لگا ہے۔ ہندوستان میں اس وقت مودی کی حکومت صرف کارپوریٹ گھرانوں اور بالادست طبقہ کے علاوہ مذہبی جنونیت کے حامل ٹولوں کو ہی اچھی لگ رہی ہے۔ مودی حکومت اپنی کارکردگی کا سارا جھکاؤ کارپوریٹ گھرانوں اور بالادست صنعتکاروں کی طرف کردیا ہے۔ پیاز کی بڑھتی قیمتیں مودی حکومت کو زوال کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ عوام کو کل تک یہ بھروسہ تھا کہ ہندوستانی معیشت اب محفوظ ہاتھوں میں آئی ہے۔ مودی اس ملک کی حیثیت کے انچارج بن گئے ہیں تو ترقی یقینی ہوگی لیکن گذشتہ 6 سال کے دوران بی جے پی کے سیاسی فیصلوں نے معیشت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ شروع میں عوام کے کانوں تک یہ خوشخبری پہنچائی گئی تھی مودی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے معیشت پہلے سے زیادہ مستحکم ہورہی ہے۔ دن گذرنے کے ساتھ یہ حقیقت عیاں ہوتی کہ حکومت نے معاشی امور میں ناقص فیصلے کئے ہیں۔ کالے دھن اور کرپشن ہی ملک کی معیشت کے اصل دشمن ہیں۔ اس سے ہٹ کر معاشی بدانتظامی نے بھی اس کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ اس کے باوجود جب حکمراں پارٹی یہ کہتے نہ تھکے کہ عوام کیلئے بہتر حکمرانی فراہم کرنے میں مودی حکومت نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح کی غلط بیانی نے خود مودی حکومت کو خیالات کی ایسی دنیا میں پہنچا دیا کہ وہاں سے باہرنکلنا مشکل ہوگیا۔ اب مودی حکومت ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اسے یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ آگے کیا کیا جائے۔ ملک کی حقیقی معاشی صورتحال پر مودی کی مقبولیت کیلئے چیلنج بن گئی ہے۔ مودی حکومت کا پہلا دور عوام کو خوش کن فیصلوں سے آگاہ کرنے میںگذر گیا۔ اس پہلے دور کی حکومت میں ہی دیہی عوام میں ناراضگیاں اور روزگار کی کمی کی شکایات سامنے آئیں تھیں۔ عوامی بہبودی کی اسکیمات کے نتائج بھی صفر ہیں۔ جب مودی کو کچھ نہ سوجنے لگا تو یہ کہنے کو فخر محسوس کیا جانے لگا کہ عوام کو خود کو بزنس قائم کرناچاہئے اور روزگار خود تلاش کرنا چاہئے۔ پڑھے لکھے تو جوانوں کو پکوڑے بیچنا چاہئے لیکن ان پکوڑوں کی تیاری کیلئے جب پیاز ہی دست رس دور ہوگئی ہے تو پھر پکوڑے بیچنے کا مشورہ بھی بیروزگاری کیلئے تکلیف دہ ثابت ہوا ہے۔ اس طرح کی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود مودی حکومت کا یہ گھمنڈ برقرار ہے کہ معیشت بہتر ہورہی ہے۔ معیشت سے نمٹنے میں ناکامی کو چھپانے کیلئے یہ حکومت کئی دیگر حربے اختیار کرنے لگی ہے۔ انتخابات جیتنے کیلئے معاشی تصویر کو بہتر ہی بتا کر پیش کیا گیا۔ مودی حکومت کی ظاہر میں ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا تعلق باطن سے برتی جانے والی بے توجہی ہے۔ نتیجتاً بی جے پی حکومت اس وقت دونوں سمت یعنی معیشت اور سیاست سے الگ ہوتی جارہی ہے۔ مہاراشٹرا میں حکومت بنانے میں ناکام بی جے پی آگے چل کر بے سمتی کا شکار ہوجائے گی۔ بی جے پی کے اندر بیٹھے رہبر آر ایس ایس نے کئی بار خواب خیالی کے ذریعہ سوتے جاگتے اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانے کی چکر میں ملک کے مستقبل کو تاریکی کی طرف ڈھکیلتے ہوئے نیم غنودگی کے عالم میں حکومت کی رہنمائی کی آر ایس ایس کی انگلی تھامے چل رہی مودی حکومت معیشت کی ابتر کے حوالے سے عوام کو جوابدہ ہے۔
اترپردیش میں لاقانونیت سے
انسانی جانوں کو خطرہ
اترپردیش میں لاقانونیت کی شکایت کرنے والوں نے انسانی جانوں کو لاحق خطرات کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے آدتیہ ناتھ یوگی حکومت پر تنقیدکی ہے کیونکہ اناؤ اجتماعی عصمت ریزی کا شکار لڑکی کو اپنے کیس کے سلسلہ میں رائے بریلی عدالت جانے کے دوران خاطیوں نے آگ لگادی تھی اس کی صفدر جنگ دواخانہ میں موت واقعی ہونا انصاف و قانون کیلئے تشویش کی بات ہے۔ اگر خاطیوں کو فوری طور پر سزاء دی جاتی تو آج ایک انسانی زندگی درندگی کا شکار ہونے کے بعد بچ جاسکتی تھی۔ حیدرآباد کے اجتماعی عصمت ریزی کیس میں ملوث تیار ملزمین کے انکاؤنٹر کی حمایت کرنے والوں نے اناؤ کیس کے تناظر میں حکومت کی نااہلیت کا سوال اٹھایا ہے۔ اگر اناؤ عصمت ریزی کیس کے ملزمین کو بھی حیدرآباد کی وٹرنری ڈاکٹر کی موت کیلئے ذمہ داروں کی طرح سزاء دی جاتی تو اس طرح کے کئی واقعات کو روکنے میں مدد ملتی۔ حیدرآباد انکاؤنٹر کو ایک طرف بروقت کی گئی درست کارروائی قرار دیا جارہا ہے تو دوسری طرف خاطیوں کی انکاؤنٹر میں موت کو انصاف و قانون کے اصولوں کے مغائر قرار دیا جارہا ہے۔ بی جے پی حکومت میں جنسی بھوکے درندوں کو کھلی چھوٹ دینے کے نتائج بھیانک نکل رہے ہیں۔ ریاست یوپی اس ملک کی سب سے کثیرآبادی والی ریاست ہے لیکن اس کا نظم و نسق لاقانونیت کی نذر ہوچکا ہے۔ اگر قانون کے رکھوالوں اور انصاف کے پجاریوں نے اپنی ذمہ داری نبھانے کا حق پورا ادا نہیں کیا تو پھر کل کی بربادی آج ہی گلے لگ جائے گی۔