مودی حکومت میں بھوکوں کی تعداد بھی بڑھ گئی

,

   

سیاست فیچر
وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت میں ترقی کے سواء ہر چیز میں اضافہ ہوا، خاص کر بیروزگاری، مہنگائی، خواتین کے خلاف مظالم و جرائم اور اقلیتوں پر ظلم و جبر کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اور بی جے پی قائدین کے لاکھ دعوؤں کے باوجود غربت میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھوکوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ، سب کا وشواس‘‘ کا نعرہ دینے والے مودی جی کی حکومت میں ایک کروڑ یا دو کروڑ نہیں بلکہ 22.4 کروڑ ہندوستانی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جبکہ مودی جی بار بار یہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ 130 کروڑ ہندوستانیوں کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے میں سنجیدہ ہیں تاہم اپوزیشن قائدین بالخصوص راہول گاندھی کے وزیراعظم نریندر مودی۔ امیت شاہ ہندوستانیوں کی ترقی میں نہیں بلکہ ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ کی ترقی میں یقین رکھتے ہیں جس کا اندازہ اڈانی کے دنیا کے تیسرے دولت مند ترین شخص بن جانے اور امبانی کی دولت میں مسلسل اضافہ سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں گلوبل ہنگر انڈکس 2022ء سے متعلق رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال 2021ء کی بہ نسبت 2022ء میں ہندوستان کی حالت مزید خراب ہوگئی۔ بھوک کے عالمی عشاریہ 2021ء میں ہندوستان 116 ملکوں میں 101 ویں مقام پر تھا۔ 2022ء میں دیکھا گیا کہ 121 ملکوں میں ہندوستان 107 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم سے اچھا موقف پڑوسی ممالک نیپال، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کا ہے۔ رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کو تشویشناک قرار دیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان (107 ویں نمبر) کی بہ نسبت سری لنکا 64 ویں، نیپال 81 ویں، بنگلہ دیش 84 ویں اور پاکستان 99 ویں مقام کے ساتھ، بہتر موقف میں ہیں۔ واضح رہے کہ 2017ء سے اس انڈکس میں ہندوستان کا درجہ گرتا ہی جارہا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بھوک کے عالمی عشاریہ میں غذائیت، غذائی قلت، بچوں کی شرح نمو اور بچوں کی شرح اموات کو شمار کیا جاتا ہے۔ بھوک کے عالمی عشاریہ میں جملہ 100 پوائنٹس ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی ملک کے لوگوں میں پائی جانے والی بھوک کی شدت کو ظاہر کیا جاتا ہے یعنی اگر کسی ملک کا اسکور صفر ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھے موقف میں ہے۔ اگر کسی ملک کا اسکور 100 ہے۔ اس کا مطلب وہ اچھی پوزیشن میں نہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بچوں کے ضائع ہونے کی شرح ہمارے ملک میں 19.3% ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ اگر ایشیا میں ہندوستان سے پیچھے کوئی ملک ہے تو وہ افغانستان ہے۔ بھوک کے عالمی عشاریہ میں اس کا نمبر 109 ہے۔ جہاں تک ناقص غذا کے باعث بچوں کے ٹھٹھر جانے کا سوال ہے، اس معاملے میں ہندوستان، پاکستان، اور افغانستان میں شرح 35 اور 38 فیصد کے درمیان ہے۔ عالمی سطح پر غذائی قلت کا شکار لوگوں کی تعداد 828 ملین ہے جبکہ ہندوستان میں یہ تعداد 224.3 ملین ہے۔ سطور بالا میں بھی ہم نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ جس ملک کا اسکور کم سے کم ہوگا، وہ بہتر موقف کا حامل ہوگا چنانچہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے 17 ملک ہیں جن کا اسکور 5 سے بھی کم ہے۔ ان ملکوں میں چین، ترکی، کویت، بیلاروس، چلی اور یوراگوئے شامل ہیں۔ مسلم و عرب ملکوں میں متحدہ عرب امارات، ازبکستان، قازقستان، تیونس، ایران، سعودی عرب بالترتیب 18 ویں، 21 ویں، 24 ویں، 26 ویں، 29 ویں اور 30 ویں مقام کے ساتھ اچھے موقف میں دکھائی دیتے ہیں۔ بھوک کے عالمی عشاریہ کے منظر عام پر آتے ہی اپوزیشن نے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ آخر مودی جی ملک میں تیزی سے بڑھ رہی غذائی قلت، بھوک و افلاس اور بچوں کے ٹھٹھر جانے جیسے حقیقی مسائل پر کب بات کریں گے۔ سی پی ایم لیڈر سیتا رام یچوری نے تو ٹوئٹ کیا کہ مودی حکومت، ہندوستان کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ آر جے ڈی کے سربراہ اور سابق چیف منسٹر بہار لالو پرساد یادو نے اپنے مخصوص انداز میں مودی حکومت کے کان کھینچے اور اس رپورٹ کو شرمناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے یہ لوگ بچا کچا ملک اور اس کی املاک بھی اپنے سرمایہ دار دوستوں کو فروخت کردے گی تاہم حکومت نے اس رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔