مودی حکومت چین سے خائف کیوں؟

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
ملک بھر میں 26 جولائی 2022ء کو بڑے پیمانے پر 23 واں کارگل دیوس منایا گیا۔ حکومت یہ دن بطور خاص کارگل جنگ کے ہیروز کی یاد میں مناتی ہے۔ خاص طور پر ہماری فوج کے ان بہادر و جیالے سپاہیوں کی یاد میں جنہوں نے مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ کارگل جنگ تین ماہ تک جاری رہی۔ ہندوستانی سپاہیوں نے پوری جوانمردی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں 527 ہندوستانی فوجی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ 1363 فوجی زخمی ہوئے۔ ملک نے اپنے اقتدار اعلی اور علاقائی سالمیت کے حصول اور اس کے تحفظ کیلیے جو قیمت ادا کی وہ کوئی چھوٹی قیمت نہیں تھی۔
ہمارے ملک نے جہاں کارگل جنگ میں فتح حاصل کی وہیں 50 سال قبل لڑی گئی ایک اور جنگ میں ہمیں کامیابی ملی تھی اور وہ جنگ بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے لڑی گئی جنگ تھی۔ اُس جنگ کا جہاں تک سوال ہے ہندوستانی دفاعی فورسس نے دو محاذوں پر وہ جنگ لڑی ایک مشرقی سرحد پر تاکہ اس وقت کے مشرقی پاکستان کو آزاد کرانے اور بنگلہ دیش کی تخلیق کو یقینی بنانے میں مکتی باہنی کی مدد کی جاسکے۔ دوسرے جس محاذ پر ہماری فوج نے دشمن کے دانت کھٹے کئے وہ مغربی سرحد کا محاذ تھا۔ مغربی سرحد پر پاکستان کی فضائیہ نے ہندوستان کے 11 فضائی اسٹیشنوں پر فضائی حملے کئے۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر ہندوستان نے بڑے پیمانے اور مکمل طورپر حملوں کا آغاز کیا جس میں 3 ہزار سپاہی مارے گئے۔ جبکہ زخمی سپاہیوں کی تعداد 12 ہزار بتائی گئی۔ 15 ڈسمبر 1971ء کو پاکستان کے ایسٹرن آرمی کمانڈر لیفٹننٹ جنرل اے اے کے نیازی نے غیر مشروط حوالگی کے معاہدہ پر دستخط کئے اور پاکستانی فوج کی کثیر تعداد ہندوستان کے لیفٹننٹ جنرل جے ایس ارورہ کے سامنے حود سپردگی اختیار کی۔ وہ ہندوستان کی عظیم جنگی کامیابی تھی۔
اب دشمن پاکستان نہیں چین ہے: بنگلہ دیش کی آزادی اور کارگل دونوں جنگوں میں ہندوستان نے پاکستان کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ سال 1947ء اور 1965میں دو جنگوں کے باوجود پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ پرامن رہنے کا سبق نہیں سیکھا اور 1971ء میں اپنی شرمناک شکست و ہزیمت کے باوجود 1989ء میں اس نے کارگل میں ہندوستانی علاقہ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ کارگل جنگ میں شکست سے سبق سیکھنے کی بجائے وہ (پاکستان) ہندوستان میں دراندازی کی ہنوز کوششوں میں مصروف ہے۔ دونوں ملکوں ہندوستان، پاکستان کے آزاد ملک بننے کے 75 سال کے بعد بھی ہندوستانیوں نے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور ایک ایسے پڑوسی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی جو اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کسی باقاعدہ جنگ میں ہندوستان کو کبھی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ ایسے میں پاکستان یقینا ایک مسئلہ ہے۔ لیکن اس پر کسی قسم کی بحث سے گریز کیا جائے۔ یعنی اسے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔
ہندوستان کے لیے جو مسئلہ ہے یا اژدھا ہے وہ دراصل چین ہے۔ ایک چیز واضح ہے کہ بی جے پی حکومت پاکستان کے معاملہ میں اپنا سینہ ٹھوک سکتی ہے پیٹھ تھپتھپاتی ہے لیکن چین کی جارحیت سے کس طرح نمٹا جائے اس بارے میں اس کے پاس کوئی پلان کوئی حکمت عملی اور کوئی پروگرام نہیں ہے۔ بالافاظ دیگر وہ چین کی جارحیت سے بے خبر ہے۔ واضح رہے کہ 11 اکٹوبر 2019ء کو تاملناڈو کے مملاپورم میں وزیراعظم نریندر مودی نے چینی صدر ژس جن پنگ کا والہانہ خیرمقدم کیا۔ دونوں ایک ساتھ جھولے میں بیٹھے جھلتے رہے اور سمندر سے آنے والی تھنڈی تھنڈی ہوائوں سے لطف اندوز بھی ہوئے اس وقت چین کی پیپلز لبریشن آرمی ہندوستانی علاقہ میں دراندازی کے منصوبہ بندی کے آخری مراحل میں تھی۔ چنانچہ یکم جنوری 2020ء کو چینی صدر نے اس حکمنامہ پر دستخط کئے جس میں فوجی کارروائی کا پی ایل اے کو مجاز گردانا کیا جس کے ساتھ ہی پی ایل اے مارچ۔ اپریل 2020ء میں ایل اے سی عبور کرتے ہوئے ہندوستانی علاقہ میں داخل ہوگئی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ چینی پی ایل اے کی اس دراندازی کا پتہ ہماری حکومت کو 5-6 مئی 2020ء کو چلا اور پھر درانداندازوں کو اپنے علاقہ سے نکال باہر کرنے کی ایک کوشش میں ہندوستان کے 20 بہادر سپاہیوں کی جانیں گئیں۔ 19 جون کو وزیراعظم نے کل جماعتی اجلاس طلب کیا اور اپنے اختتامی ریمارکس میں ببانک دہل کہا کہ باہر کے کسی بھی شخص نے ہندوستانی علاقہ میں دراندازی نہیں کی اور نہ ہی کوئی بیرونی درانداز ہندوستانی علاقہ میں موجود ہے۔ وزیراعظم کے بیان کے برعکس کئی ایک فوجی عہدیداروں اور دفاعی ماہرین کے مطابق ہندوستان کا تقریباً ایک ہزار مربع کیلومیٹر پر کنٹرول باقی نہیں رہا اور ایسے علاقہ میں جہاں پہلے ہندوستانی سپاہی گشت کرسکتے تھے۔ دلچسپی کی ایک اور بات یہ ہے کہ سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے ہندوستان اور چین کے درمیان فوجی سطح پر بات چیت کے 16 دور ہوچکے ہیں۔ اگر کوئی بیرونی فرد/ افراد ہندوستانی علاقہ میں نہیں ہیں تو پھر ہمارے 20 سپاہیوں نے اپنی جانیں کیوں گنوائیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ کیوں پیش کیا؟ آخر ہندوستان اور چین کے درمیان کیا بات چیت ہورہی ہے؟ دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈر بات چیت کے ختم نہ ہونے والے رائونڈس میں کیا کررہے ہیں۔ کس موضوع پر بات کررہے ہیں؟ آحر ہماری وزارت امور خارجہ بار بار دستبرداری اور ’’disengagement‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے؟ آیا یہ سچ نہیں ہے کہ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کا بیان اور وزارت امور خارجہ کے بیانات میں پہلے جیسی صورتحال کی بحالی کے مطالبات کئے گئے ہیں؟
چلئے اب تلخ حقائق کی طرف چلتے ہیں۔ چین اس بات کا دعوی کررہا ہے کہ ساری وادی گلوان پر اس کا حق ہے۔ چین یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ ایل اے سی فنگر 4 اور فنگر 8 سے ہوکر گزرتی ہے (فنگر 4 اور فنگر 8 کے درمیان علاقہ پر مئی 2020ء سے قبل ہندوستان کا کنٹرول تھا اور ہندوستانی فوجی وہاں گشت کیا کرتے تھے) آپ کو بتادیں کہ 16 ویں دور کی بات چیت میں چین نے متنازعہ علاقہ پر کسی بات کو تسلیم نہیں کیا حالانکہ ہندوستان ڈیم چوک اور دیپسانگ پر بات چیت چاہتا ہے لیکن چین نے انکار کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ اکسائی چین اور ہندوستان کے ساتھ وہ جو 3488 کیلومیٹر سرحد شیر کرتا ہے وہاں فوجی بنیادی سہولتوں کی تعمیر کررہا ہے جس نے ایل اے سی پر 5G نٹ ورکس بھی نصب کردیئے۔ پنگانگ TSO پر ایک نئے پل کی تعمیر بھی عمل میں لائی۔ وہ سرحد پر مزید فوج اور ہارڈ ویر لارہا ہے۔ نئے مواضعات میں وہ اپنے شہریوں کو آباد کررہا ہے۔ ایسے سٹیلائٹ تصاویر منطر عام پر آئی ہیں جو اس طرح کی کئی تبدیلیوں کی تصدیق کرتی ہیں۔
مسٹر شیام سرن سابق معتمد خارجہ نے اپنی ایک حالیہ کتاب (چین، ہندوستان اور دنیا کو کیسے دیکھتا ہے) میں لکھا ہے کہ چینی ایشیاء میں اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک ماتحت کی شکل میں دیکھنا چاہے گا۔ لیکن ہندوستان ایشیاء میں اپنی جارہ داری کا خواہاں ہے یہ بالکل درست ہے لیکن چین کیوں جارحانہ موقف ا ختیار کئے ہوئے ہے؟ مسٹر شیام سرن لکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور فوجی صلاحیتوں کے معاملہ میں جو خلیج پائی جاتی ہے وہ چین کے حق میں جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2021ء میں چین کی قومی مجموعی پیداوار 16663 ارب ڈالرس اور ہندوستان کی جی ڈی پی 2946 ارب ڈالرس ہے۔