مودی نے ہندوستان کو سوپر پاور بننے سے روک دیا

   

شعیب دانیال
سال 2000ء سے 2010ء کی دہائی میں ہندوستان نے اپنی کارکردگی کا جو مظاہرہ کیا ، وہ معاشی فروغ اور سالانہ شرح ترقی 8.8% کی وجہ سے متاثرکن تھا، لیکن اب اسے تباہ کردیا گیاکیونکہ کئی ہندوستانیوں نے خود کو ہندوستانی شہری کے بجائے ہندوستان کی ابھرتی ہوئی سوپر پاور تصور کرنا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ صدر اے پی جے عبدالکلام نے پیش قیاسی کی تھی کہ ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک 2020ء تک باقی نہیں رہے گا بلکہ ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک بن جائے گا۔
تاہم ان میں سے کوئی بھی چیز اس طویل معاشی ترقی کی مدت میں پیش قیاسی کے مطابق نہیں ہوئی۔ نریندر مودی کو عروج حاصل ہوا لیکن معیشت پر اس کی وجہ سے کاری ضرب پڑی۔ نئے جی ایس ٹی کی بناء پر شرح نمو 2016ء سے متاثر ہوتی آرہی ہے۔ خاص طور پر ملک کو انتشار پسند پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 2019-20ء میں تک شرح ترقی صرف 4% بھی نہیں ہوسکی۔ کورونا وباء کی وجہ سے معیشت کا حال ابتر ہوگیا اور 2020-21ء میں شرح ترقی 7.3% ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آزادی کے بعد ہندوستان نے معاشی محاذ پر بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تاہم یہ بے مثال معاشی ابتری وباء کی دوسری لہر کے اثرات کے تحت بہت کم ہے جبکہ سرکاری ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 3.8 لاکھ ہے۔ حالانکہ ’’نیویارک ٹائمس‘‘ نے 6 لاکھ سے 82 لاکھ تک ہندوستانیوں کی موت کی پیش قیاسی کی ہے۔ ہندوستان واضح طور پر ایک اُبھرتی ہوئی سوپر پاور بالکل نہیں رہا۔ اس کے برعکس ماہرین اور تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان اب ایک ناکام مملکت بننے کی جانب رواں دواں ہے۔
مملکت کا زوال
9 مئی کو دوسری لہر کے عروج کے دوران صدر مرکز دانشوران برائے پالیسی سازی یامینی ایّر نے ’’ہندوستان ٹائمس‘‘ میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس کے بموجب ہندوستان ناکام مملکت کہلانے کی سمت تیزی سے پیشرفت کررہا ہے۔ اگر ہندوستان کے صحت کے نظام کا انکشاف ہوجائے اور بے بس ہندوستانیوں کی ادویہ اور آکسیجن کے حصول کیلئے جدوجہد آشکار ہوجائے، اشیائے ضروریہ ، ادویہ، دواخانہ میں بستر اور دیگر ضروری اشیاء کہیں بھی نظر نہیں آتیں۔ حالانکہ یہ مملکت کی ذمہ داری ہے۔
ایّر نے ہندوستانی مملکت کو ایک ناکام مملکت قرار دیا ہے۔ برطانیہ کے ایک ماہر معاشی رسالہ نے تحریر کیا ہے کہ اب ہندوستان میں کوئی معاشی مملکت برقرار نہیں رہی۔ ہندوستان، پاکستان یا بنگلہ دیش کی بہ نسبت صحت کے شعبہ میں ناکامی کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ جبکہ نامور صحافی سعید نقوی کی دختر فرح نقوی نے تحریر کیا کہ مملکت کی ناکامی کی وجہ سے اسے آسانی سے ایک مضمون کا عنوان بنایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان معاشی ناکام مملکتوں کا صدر مقام کہا جاسکتا ہے۔ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے ماہر معاشیات اشوک گلاٹی نے تحریر کیا کہ کورونا وباء کی دوسری لہر کے دوران ملک پوری طرح معاشی تباہی کا شکار ہوگیا۔ نعشیں دریائے گنگا میں بہتی نظر آئیں جس کی وجہ سے سیاست دانوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کافی مشکلات پیش آئیں۔
وفاقیت بحیثیت زرہ بکتر
مرکزبرائے کثیر جہتی وفاقیت کے ادارہ سماجی علوم کے صدرنشین بلویر اروڑہ نے ایّر کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ناکام معاشی مملکت بن چکا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کا وفاقی نظام مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔ ارورہ نے تحریر کیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ نقصان مملکت کے وفاقی ڈھانچہ کو پہنچا۔ اس کے نتیجہ میں ایک ناکام مرکزی مملکت کا مطلب ناکام وفاقیت نہیں ہونا چاہئے۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں ناکام مملکت کا تاثر مٹادینے کیلئے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنا ضروری ہے۔ ہندوستان کی بعض ریاستوں نے انفرادی طور پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، جیسے ٹاملناڈو اور کیرلا ان دونوں ریاستوں کو کامیاب ریاستی حکومتیں کہا جاسکتا ہے جبکہ مہاراشٹرا کی ریاستی حکومت ناکام حکومت کہلاسکتی ہے۔ ارورہ کے خیال میں کثیف سیاہ بادلوں کے کنارے اُمید کی سنہری شعاع موجود ہے۔ ریاستی حکومتیں وفاقی نظام کی بقاء کیلئے امید کی شعاع کے طور پر اُبھر آئی ہیں۔ ریاستیں ، عہدیداروں کے آمرانہ طرز حکمرانی کے سختی سے مخالف ہے۔
ناکام مملکت یا غلط فیصلے
تاہم ناکام مملکت کی بحث کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اشوک یونیورسٹی کے سوشیل سائنس کے ماہر نیلنجل سرکار کی رائے ہے کہ ایک ناکام مملکت ایسی مملکت ہوتی ہے جس میں اس کے شہری مملکت کی کارکردگی میں کوئی حصہ نہیں لے سکتے اور کوئی بھی اس کے غلط فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ نیلنجل سرکار نے کہا کہ ناکام مملکت قرار دینے کیلئے کئی پیمانے موجود ہیں جو مملکت کو بہ آسانی ناکام مملکت قرار دینے سے روکتے ہیں۔ جس میں دور حکومت میں شہریوں کی حالت کے بارے میں تفصیلات کا علم بھی شامل ہے۔ ناکام مملکت وہ ہوتی ہے جس کی ابتر حالت کو کوئی انسدادی طریقہ کار بہتر نہیں بنا سکتا۔ حکومت کی پالیسیوں پر کوئی قابو نہیں رہتا اور حکومت تیز رفتاری سے تمام اختیارات مرکوز کرتی رہتی ہے۔ تاکہ اس کے فیصلوں کا تجزیہ نہ کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی سطح کے برسراقتدار قائدین کا یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے پاس حکومت نے کوئی بھی اختیارات باقی نہیں چھوڑے۔ ’’دی پرنٹ‘‘ کے ایڈیٹر شیکھر گپتا اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ہندوستان ایک ناکام مملکت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 8 مئی کو ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جب تک کسی حکومت کے دوران ذرائع ابلاغ اور معاشرہ کو آزادی حاصل ہوئی، شہریوں کی آزادیٔ اظہار خطرہ میں نہ ہو تب تک کوئی بھی مملکت ناکام مملکت قرار نہیں دی جاسکتی۔ جبکہ اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ ہندوستان ناکام مملکت میں تبدیل ہوچکا ہے یا نہیں، لیکن اس کا ابھرتی ہوئی سوپر پاور بننے کا خواب مودی کے دور حکومت میں شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔