دئے جلانے سے ہوگا نہ فائدہ کوئی
خود آفتاب بناؤ بہت اندھیرا ہے
انتخابات کے موسم میں ویسے بھی سیاسی قائدین کی تقاریر میں ایک دوسرے پر تنقیدیں ہی ہوا کرتی ہیں۔ ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو نشانہ بنانے والے قائدین کی تقاریر اور مباحث میں انتخابات کے دوران زیادہ تیزی آجاتی ہے اور وہ بسا اوقات اخلاقی حدود کو بھی پھلانگنے سے گریز نہیں کرتے ۔ ہمیشہ کی طرح بے بنیاد تنقیدیں اور پورے نہ ہونے والے چیلنجس کرتے رہتے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں پارلیمانی انتخابات کا عمل اپنا آدھا سفر طئے کرچکا ہے اور مزید آدھا سفر باقی رہ گیا ہے انتخابی مہم کے معیارات میں مسلسل گراوٹ دیکھی جارہی ہے ۔ ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے تاہم اخلاقی حدود کو پھلانگنے والے کچھ مقامی سطح کے قائدین اور کارکن ہوتے ہیں جو جذباتیت کا شکار رہتے ہیں۔ تاہم اس بارک ے انتخابات میں دیکھا گیا کہ اعلی قائدین بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں اور وہ بھی اپنے عہدوں کے وقار کو تک داؤ پر لگاتے ہوئے اخلاقی گراوٹ اور انتہائی منفی سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ملک کے میڈیا کا جہاں تک سوال ہے تو وہ اس معاملے میں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی بجائے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہا ہے ۔ منفی مہم کو پوری شدت کے ساتھ عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ نفرت انگیز پروپگنڈہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ ہر معاملے کو کو ایک مخصوص ڈھنگ سے پیش کرتے ہوئے رائے دہندوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ انتخابات کے موسم میں ایک دوسرے کے مدمقابل قائدین کو مباحث کیلئے مدعو کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ کئی برسوں سے میڈیا اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے سے عمدا گریز کر رہا ہے ۔ ایسے میں اب دو سابق ججس اور ایک معروف صحافی نے پہل کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو عوامی مباحث کیلئے مدعو کیا ہے ۔ ملک میں جاری انتخابی مہم کے دوران یہ ایک اچھی پہل ہے ۔ تاہم یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس دعوت نامہ کو قبول نہیں کیا جائیگا ۔ وزیر اعظم نے تو گذشتہ دس برس میں میڈیا سے ایک بار بھی رسمی طور پر بھی بات چیت نہیں کی ہے اور صرف اپنے ’ من ‘ کی بات کرتے ہیں۔
فی الحال تو انتخابی سرگرمیوں کا عذر بھی موجود ہے ۔ گذشتہ دس برس میں ایک بھی موقع ایسا نہیں رہا جب وزیر اعظم نے میڈیا سے بات چیت کی ہو۔ گذشتہ انتخابات سے قبل اپنے کارندوں کو مدعو کرتے ہوئے تفریح طبع کیلئے کچھ سوالات کے جواب انہوں نے ضرور دئے تھے اور یہ واضح کیا تھا کہ وہ آم چوس کر کھاتے ہیں یا کاٹ کر کھاتے ہیں۔ عوام کے مسائل کی جہاں تک بات ہے تو اس پر وزیر اعظم نے کبھی کسی سوال کا کسی کو جواب نہیں دیا ۔ جہاں تک کانگریس لیڈر راہول گاندھی کا سوال ہے وہ اکثر و بیشتر صحافت سے بات کرتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ پریس کانفرنس میں بھی موجود ہوتے ہیں اور میڈٕیا کے سوالات کے جواب بھی دیتے ہیں۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بھی لوکر ‘ دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ‘ جسٹس اے پی شاہ اور معروف صحافی این رام نے ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے دونوں ہی قائدین کو عوامی مباحث کیلئے مدعو کیا ہے ۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ملک کے عوام کے سامنے اب صرف الزامات اورجوابی الزامات ہی پیش کئے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو چیلنجس ہی کئے جا رہے ہیں۔ حقیقی مسائل پر کسی کی توجہ نہیں ہے ایسے میں دونوں ہی کو عوامی مباحث کیلئے مدعو کیا جاتا ہے ۔ دو سابق ججس اور ایک معروف صحافی کی یہ ایک اچھی پہل ہے اور یہ کام در اصل ملک کے میڈیا کو کرنا چاہئے تھا لیکن ہمارا میڈیا تو تلوے چاٹنے میں مصروف ہے اور آگ پر گھی ڈالنے کے کام پوری تندہی کے ساتھ کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔
واقعتا اایسا کوئی مباحثہ اگر ہوتا ہے تو اس سے ملک کے عوام کو حقیقی معنوں میں ایک رائے بنانے کا موقع ملے گا ۔ جو سوالات کئے جائیں گے ان کی اہمیت کا انداز ہ ہوگا اور ان سوالات کے جواب جو دئے جائیں گے ان سے قائدین کی سنجیدگی اور ان کی سوچ و فکر کے تعلق سے بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے ۔ ملک میں مختلف گوشوں کو اس تعلق سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کے مباحث کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ حالانکہ شرکت کا فیصلہ تو دونوں قائدین کو ہی کرنا چاہئے تاہم اس پر رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے دونوں ہی قائدین کو اس تعلق سے سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ضرور کیا جاسکتا ہے ۔