مودی ‘ پھر ہندو مذہب کا سہارا

   

تم بے سہارا ہو تو، کسی کا سہارا بنو
تم کو اپنے آپ ہی سہارا مل جائے گا
ملک میں لوک سبھا انتخابات کا عمل پورا ہوگیا ہے ۔ نئی لوک سبھا تشکیل پا گئی ہے ۔ نئی حکومت نے بھی ذمہ داری سنبھال لی ہے ۔ اٹھارہویں لوک سبھا کا پہلا اجلاس بھی شروع ہوچکا ہے ۔ ملک کے عوام یہ امید کر رہے تھے کہ اب جبکہ انتخابات کا عمل ختم ہوچکا ہے ہندو۔ مسلم کی سیاست کو ترک کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے گی۔ عوامی مسائل پر ایوان میں مباحث کئے جائیں گے ۔ اپوزیشن کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انہیں بھی ملک کی ترقی میں ساتھ لینے کی کوشش کی جائے گی ۔ جس طرح وزیر اعظم نے اتفاق رائے کی سیاست کرنے کا اعلان کیا تھا واقعتا اس پر عمل کیا جائیگا تاہم ایسا بالکل بھی نہیں ہو رہا ہے ۔ اب بھی ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم انتخابی موڈ ہی میں ہیں اور ان کے سامنے ہندو۔ مسلم کی سیاست کی رہ گئی ہے ۔ وہ ملک کے مسائل اور عوام کو درپیش چیالنجس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اب بھی ہندو۔ مسلم کی سیاست کو ہی اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے آج لوک سبھا میں اظہار خیال کیا ۔ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر کے مباحث پر جواب دینے کا آج ان کا ذمہ تھا ۔ انہوں نے آج پھر اپوز۔یشن اور خاص طور پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہندووں کو رسواء کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔ در اصل خود وزیر اعظم نے انتخابی مہم کے دوران ملک کے مسلمانوںکو رسواء کرنے کی منظم مہم چلائی ۔ کی تقاریر میں مسلمانوں کو در انداز ‘ زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور کیا کچھ نہیں کہا ۔ انہیں اس وقت کوئی عار محسوس نہیں ہوا اور اب راہول گاندھی کے جارحانہ تیور پر اپنی بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی تنقید کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے خود بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کانگریس اور اپوزیشن ہندو مذہب کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی ۔ بلکہ ایسا کرنے کی کوششوں پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ بیان انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے کیونکہ ایک بار وزارت عظمی عہدہ کے وقار کو برقرار نہیں رکھا گیا ۔ صرف سیاسی مقصد براری کو پیش نظر رکھتے ہوئے سابقہ راگ ہی الاپا گیا ہے ۔
راہول گاندھی نے ملک پارلیمنٹ میں بحیثیت قائداپوزیشن تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی کا مطلب سارا ہندو سماج نہیں ہے ۔ بی جے پی کا مطلب سارا ہندو سماج نہیں ہے اور آر ایس ایس کا مطلب سارا ہند و سماج نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے ۔ مودی یقینی طور پر ہندو ہوسکتے ہیں لیکن سارا ہندو سماج نہیںہوسکتے ۔ مودی ہندو سماج سے ہوسکتے ہیں لیکن سارا ہندو سماج مودی سے نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح بی جے پی اور سنگھ پریوار کا بھی حال ہے ۔ تاہم مودی ہوں یا بی جے پی ہوں یا پھر آر ایس ایس ہو یہ لوگ حقیقی اور بنیادی مسائل پر نہ خود توجہ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام کی توجہ اس جانب مبذول ہو۔ ان سے اگر سوال پوچھا جائے تو راست جواب دینے کی ہم نہیںکرپاتے اور پھر متنازعہ ریمارکس کرتے ہوئے سارا ماحول ہی تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ کہا یہ گیا ہے کہ مودی سے ہندو سماج نہیں ہے اور نہ ہی بی جے پی سے ہندو سماج ہے لیکن مودی اور ان کے ہمنواء اب ہندو برادری کو الجھانے کی کوشش حسب روایت شروع کرچکے ہیں کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہیںکہ سارے ہندو مودی کی مرہون منت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں سینکڑوں برس سے ہندو سماج موجود ہے ۔ اس کو کسی ایک شخصیت سے مربوط کردینا مذہب کی توہین کے برابر ہے اور مودی اور ان کے ساتھی لگاتار ایسا کرتے جا رہے ہیں۔ان کی یہ کوشش محض سیاسی افئدہ حاصل کرنے کیلئے ہے لیکن وہ اس کے مضمرات کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔
جس طرح سے نریند رمودی نے آج پارلیمنٹ میں جواب دیا ہے اس سے یقینی طور پر ان کی بوکھلاہٹ کا بھی اظہار ہوا ہے ۔ یہی بوکھلاہٹ بی جے پی کیلئے مسائل کا باعث بن سکتی ہے ۔ راہول گاندھی نے تو پارلیمنٹ میں جس طرح سے کل تقریر کی اور ڈٹ کر اظہار خیال کیا اس سے واضح ہوگیا ہے کہ وہ جارحانہ تیور اختیار کرچکے ہیں اور یہ بی جے پی کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے ۔ مودی کو بھی اس بات کا احساس ہوچلا ہے لیکن وہ اس سے نمٹنے کیلئے جو طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں وہ مناسب نہیں ہے ۔ انہیں ملک کی ہم آہنگی والی فضاء کو متاثر کرنے اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو مشتعل کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔