مودی کا ایک اور فرقہ وارانہ کارڈ

   

رہزنوں کی رہنمائی کا ہوا ایسا اثر
راستے کا ہر لٹیرا کارواں میں آگیا
مودی کا ایک اور فرقہ وارانہ کارڈ
انتخابات کیلئے رائے دہی کے مراحل جیسے جیسے قریب آتے جا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی بے چینیوں میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ گذشتہ دنوں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بی جے پی کو خود اپنے داخلی سروے میں حیرت انگیز جھٹکے لگے ہیں اور پارٹی نہ صرف اقتدار سے محروم ہونے والی ہے بلکہ این ڈی اے کی حالت بھی ابتر ہوکر رہ جائیگی ۔ ویسے تو بی جے پی کے مختلف قائدین کی جانب سے وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ ریمارکس کا سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن مخصوص موقعوں پر خود وزیر اعظم اس میدان میں کود جاتے ہیں اور ایسے ریمارکس کرجاتے ہیںجو ہندوستان جیسے ملک کے وزیراعظم کو ذیب نہیںدیتے ۔ اترپردیش اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر مہم میں حصہ لیتے ہوئے مودی نے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے فرقہ وارانہ نوعیت کے ریمارکس کئے تھے ۔ اس موقع پر ان پر کافی تنقیدیں بھی ہوئی تھیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی اپنے خول میں جینا پسند کرتے ہیں اور انہیں دنیا کی کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ انہیں اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ ان کے ریمارکس کی بدولت ملک کے جلیل القدر عہدہ کا وقار مجروح اور پامال ہو رہا ہے ۔ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات کیلئے ماحول گرم ہوتا جارہا ہے اور بی جے پی کو حقائق کا اندازہ ہونے کے ساتھ فکر و تشویش بھی لاحق ہوتی جا رہی ہے ایسے میں مودی ایک بار پھر فرقہ پرستانہ ریمارکس کا سہارا لے رہے ہیں۔ اب انہوں نے دہشت گردی کے مسئلہ پر ہندووں کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے ایک امن پسند فرقہ ہندووں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ ریمارک انہوں نے اس تناظر میں کیا کہ حال ہی میں سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے ہندو ملزمین کو عدالت نے بری کردیا ہے اور افسوس اس بات کا بھی ہے کہ این آئی اے نے اس فیصلے کے خلاف بالائی عدالت میں کوئی اپیل بھی کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ اسیمانند اور ان کے ساتھی اس کیس میں ملزم بنائے گئے تھے لیکن استغاثہ ان کے خلاف کوئی ثبوت عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے ۔
سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں ہوسکتا ہے کہ اسیمانند اور ان کے ساتھی بری کردئے گئے ہوں لیکن یہ کسی برادری یا فرقہ کیلئے کوئی تمغہ نہیں ہوسکتا بلکہ ساری قوم کیلئے لمحہ فکر ہے کیونکہ ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں ایک دہشت گردانہ حملے میں ‘ جس میں درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے تھے ‘ ملزمین کو عدالت میں سزا دلانے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ یہ ہماری ایجنسیوں کی ناکامی ہے اور اس پر ایجنسیوں سے سوال کرنے کی بجائے مودی اس کو دوسرے ہی رنگ سے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ان کی تنگ نظری اور متعصب ذہنیت کی عکاسی ہے ۔ وہ حکومت کے سربراہ ہیں اور حکومت کے تحت کام کرنے والی ایجنسیوں کی کارکردگی پر وہ ملک کے آگے جوابدہ ہیں۔ انہیںایجنسیوں سے خود بھی جواب طلب کرنے کی ضرورت تھی ۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے تھا کہ ملک میں گذشتہ برسوں میں جتنے بھی دہشت گردانہ واقعات پیش آئے ہیںان کے ملزمین کو کیفر کردار تک پہونچایا جائے ۔ اس کی بجائے وہ عدالت کے فیصلے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی ناکامی کو انتخابی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے ریمارکس کے ذریعہ وہ ایک بار پھر ہندو ۔ مسلم خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے یو پی اسمبلی انتخابات کے موقع پر شمشان ۔ قبرستان اور دیپاولی و عید کے ریمارک سے کیا تھا ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔
وزیر اعظم کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اور خود نریندرمودی اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کیلئے کس حد تک بے چین ہیں اور وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ انہیں ملک میں سماج میں پیدا ہونے والے نفاق اور خلیج کی پرواہ نہیںہے اور وہ صرف کسی بھی قیمت پر اقتدار ہتھیانا چاہتے ہیں۔ انہیں ملک کے جلیل القدر عہدہ کے وقار کی پامالی کی بھی کوئی فکر نہیں ہے ۔ انہیں یہ بھی لحاظ نہیں ہے کہ ان کے ریمارکس سے عوام میں کیا تاثر پیدا ہوگا ۔ پہلے ہی ملک میں کئی گوشوں سے ہندو ۔ مسلم خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کو مودی اپنے ریمارکس سے مزید وسعت دے رہے ہیں۔ انہیں ایسے ریمارکس سے گریز کرنا چاہئے اورعوام کو بھی ایسے ریمارکس کرنے والوں کو اپنے ووٹ سے سبق سکھانا چاہئے ۔