جانے کس سمت سے مہتاب نکل آیا ہے
آپ آئے تو مرے گھر کے مقدر بدلے
وزیر اعظم نریندرمودی کا دورہ یوکرین اختتام کو پہونچا ۔ اس دورہ کے موقع پر وزیر اعظم نے یوکرین کے صدر سے ملاقات کی اور کئی امور پر بات چیت ہوئی ہے ۔ ہندوستان اور یوکرین کے مابین چار معاہدات پر دستخط بھی کئے گئے ہیں۔ دو ملکوں کے مابین معاہدات جو طئے پاتے ہیںان کی اپنی اہمیت اور دونوں کیلئے ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے کے مفادات کی تکمیل کیلئے ہی اس طرح کے معاہدات طئے پاتے ہیں۔ ہندوستان اور یوکرین کے مابین بھی یہ معاہدات اسی نوعیت کے ہیں تاہم ان سے زیادہ اہمیت ہندوستانی نقطہ نظر سے بجائے خود وزیر اعظم کے دورہ یوکرین کی ہے ۔ خاص طور پر اس تناظر میں جبکہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ چل رہی ہے ۔ روس کے خلاف سارا یوروپ اور مغربی ممالک ایک ہوگئے ہیں۔ روس کی مخالفت میں یوکرین کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے ۔ معاشی امداد ہو کہ فوجی ساز و سامان کی فراہمی ہو یوروپ اورمغربی ممالک اس معاملے میں یوکرین سے کھلے دل سے تعاون کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے یوکرین روس جیسی طاقت کے مقابلہ میں ایک طویل جنگ میں خود کو برقراررکھنے کا متحمل ہو رہا ہے ۔ ہندوستان کے روس کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ نریندرمودی اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یہ کہاجاتا ہے کہ ہندوستان روس اور یوکرین کے مابین جنگ کو ختم کروانے کا خواہشمند ہے ۔ ہندوستان نے وزیراعظم کے دورہ کے موقع پر اس خیال کا اظہار بھی کیا ہے کہ ہندوستان جنگ میں کسی ایک ملک کا حامی یا معاون نہیں ہے بلکہ وہ امن کا حامی ہے اور چاہتا ہے کہ امن قائم ہو ۔ ہندوستان کا یہ بھی تاثر ہے کہ جنگ نہ صرف یوکرین کیلئے بلکہ ساری دنیا کیلئے اور خاص طور پر علاقہ کے ممالک کیلئے انتہائی بھیانک اور تباہ کن اثرات کی وجہ ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی ۔ جنگ صرف تباہی کی وجہ بن سکتی ہے امن کی نہیں ۔ ایسے میں روس اور یوکرین کے مابین جنگ جتنی جلدی رک جائے اتنا ہی دنیا اور خود روس اور یوکرین کے مفاد میں ہے ۔ سارے علاقہ کے مفاد میں ہے اور عوام کے مفاد میں ہے ۔
ہندوستان کا جہاں تک سوال ہے جنگ کے باوجود اور مغرب اور یوروپ کے موقف سے قطع نظر اس نے روس سے تیل کی درآمدات کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا ہے ۔ ایسے میں وزیر اعظم کا دورہ یوکرین اہمیت کا حامل ضرور ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ یہ دورہ علاقہ میں اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے مقصدسے کیا گیا ہے ۔جنگ کے دوران نریندرمودی روس کا دورہ بھی کرچکے تھے اور وہ اب یوکرین کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ یہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہی ہے اور ان کے اس دورہ کے جو کچھ بھی اثرات ہونگے ان پر نہ صرف روس کی بلکہ امریکہ کی بھی قریبی نظر رہے گی ۔ ہندوستان کو اپنے تعلقات کے معاملے میں جو توازن برقرار رکھنا ہے وہ صرف روس کی حدتک محدود نہیں ہے ۔ ہندوستان کو اس معاملے میں امریکہ سے تعلقات کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان عالمی امور میں جتنی اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے اور اس کی رائے کو جو اہمیت دی جا رہی ہے اس تناظر میں تمام ممالک سے تعلقات کو بہتر رکھنا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوسکتا اور ایسے میں یوکرین کا دورہ کرنا بھی ایک حکمت عملی کا حصہ ہی ہے ۔ یوکرین نے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اگر ہندوستان سرگرم رول ادا کرے اور روس پر دباؤ بنانے میںکامیاب ہوجائے تو پھر جنگ کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ جنگ کے نقصانات کو ٹالا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا بھر پرجو اثرات مرتب ہو رہے ہیںان کو بھی روکا یا ختم بھی کیا جاسکتا ہے ۔
یوکرین کا کہنا تھا کہ ہندوستان ‘ یوکرین میں جو تباہی ہوئی ہے اور جو نقصانات ہوئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے تعمیر جدید میں اپنا رول ادا کرے ۔ ہندوستان سے کچھ فنی اور دوسری مدد کی بھی یوکرین نے خواہش ظاہر کی ہے ۔ ہندوستان کیلئے ان امور پر قعی موقف کا اظہار کرنا یا یوکرین کی فراخدلی سے مدد کرنا آسان نہیںہوگا ۔ وزیر اعظم کا دورہ یوکرین اہمیت کا حامل تو ضرور رہا ہے تاہم اس دورہ کے کیا کچھ نتائج برآمد ہونگے یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے اور اس کے نتائج پر نہ صرف ہندوستان کی بلکہ روس ‘ امریکہ اور سارے یوروپ کی نظریں بھی رہیں گی ۔
اسمبلی انتخابات اور اپوزیشن
جموںو کشمیر اور ہریانہ میںاسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ شیڈول جاری کردیا گیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدواروں کو قطعیت دینے اور دیگر تیاریوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت ہے اور جموںو کشمیر میں گورنر راج ہے ۔ اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوںکیلئے ان انتخابات میں کامیابی انتہائی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے ۔ خاص طور پراس حقیقت کے پیش نظر کہ آئندہ چند مہینوں میںمہاراشٹرا اور دوسری ریاستوںمیں بھی ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ آئندہ سال بہار میں چناؤ ہونگے ۔ اگر اپوزیشن جماعتیں ہریانہ میں بی جے پی کو شکست دینے اور جموںو کشمیر میںا پنا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو بہار اور مہاراشٹرا جیسی بڑی ریاستوں میں بھی اس کیلئے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ پارٹی کیڈر اور کارکنوں کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں اور بی جے پی کی لگاتار کامیابیوں کے سلسلہ کو روکا جاسکتا ہے ۔ ہریانہ میں کانگریس کیلئے ایک اچھا موقع ہے کیونکہ اس نے لوک سبھا انتخابات میں وہاں پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ جموں و کشمیر میں کافی وقت کے بعد رائے دہی ہونے والی ہے ایسے میں عوام کے موڈ کو بہتر انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ایک کامیاب حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی کو شکست سے دو چار کیا جاسکتا ہے اور کانگریس کی مرکزی قیادت کو دونوںہی ریاستوں میںعلاقائی جذبات اور عوام کی توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جامع اورموثر حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔