مودی کا نیا ہندوستان

   

پروفیسر اپوروانند
15 اگسٹ کو جب سارا ملک جشن یوم آزادی منارہا تھا، گجرات میں بے شمار لوگوں کے قتل اور مسلم خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کے مجرمین کو جیل سے رہا کیا جارہا تھا۔ انھیں عمر قید سے آزاد کیا جارہا تھا۔ ان مجرمین نے 2002ء گجرات فسادات میں اس قدر بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا جن کا تصور کرکے ہی شاید انسانیت لرز جاتی ہوگی۔ ان مجرمین کو کسی عدالت نے رہا نہیں کیا بلکہ حکومت گجرات نے ان کی معافی کا حکم دیتے ہوئے رہائی کو یقینی بنایا۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں کہ ان مجرمین کو ایک ایسے دن رہا کیا گیا، جب ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزادی کا 75 واں جشن منارہا تھا۔ افسوس، صد افسوس کہ اس مقدس دن ان قیدیوں یا مجرمین کو رہا کیا گیا جن کے ہاتھ بے قصور مرد و خواتین اور شیرخوار بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جنھوں نے بلقیس بانو جیسی بے بس و مجبور خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کرکے انسانیت کو شرمندہ کردیا تھا۔ حکومت گجرات کی مہربانی سے ان مجرمین کو نہ صرف معافی دی گئی بلکہ انھیں گودھرا جیل سے رہا کردیا گیا اور جب وہ جیل کے باہر آئے تو ان کے گلوں میں پھول کے ہار ڈالے گئے (گلپوشی کی گئی) اور مٹھائیاں کھلائی گئیں۔ کچھ لوگوں نے تو قتل عام اور اجتماعی عصمت ریزی کے ان مجرمین کے پیر بھی چھوئے۔
گجرات میں جب مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا تھا، اس دوران بلقیس بانو اور مسلم مرد و خواتین کا ایک گروپ اپنی جانیں بچانے ٹرک میں بیٹھ کر گاؤں سے راہ فرار اختیار کررہا تھا۔ ان کا تعاقب کیا گیا اور مہلک ہتھیاروں سے سب کو ذبح کردیا گیا۔ بلقیس بانو کے بشمول کچھ خواتین کی عصمت ریزی کی گئی اور انھیں شدید زدوکوب کیا گیا۔ اس واقعہ میں صرف بلقیس بانو کی زندگی بچ گئی۔ وہ بے ہوش ہوگئی تھی اور مجرمین نے اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ جب بلقیس بانو کو اس کے مجرمین کی رہائی کی خبر ملی، تب وہ حیران رہ گئی اور صدمہ سے دوچار ہوگئی۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی بھی عورت کے لئے اگر ایسا ہی اِنصاف کیا جائے تو کیا وہ اِنصاف ہوگا؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو سراسر ناانصافی ہوگی اور مجرمین کو رہا کرتے ہوئے میرے ساتھ بھی ناانصافی کی گئی۔ میری طرح عصمت ریزی کا شکار ہوکر قانونی لڑائی لڑنے والی خواتین کے ساتھ بھی ناانصافی کی گئی ہے۔ اس حملہ میں 14 مرد و خواتین اور بچوں کا قتل کیا گیا جن میں چار خواتین اور چار کمسن بچے شامل تھے، لیکن بلقیس بانو نے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی جو اُس وقت ریاست گجرات کے چیف منسٹر تھے، اب بھی گجرات میں ان کی پارٹی کی ہی حکومت ہے اس کی طاقت کے باوجود قانونی لڑائی شروع کی۔ وہ تقریباً برہنہ اور شدید زخمی حالت میں جب پولیس اسٹیشن پہنچی، تب مقامی پولیس آفیسر نے اس کا بیان توڑ مروڑکر درج کیا تاکہ مقدمہ کو کمزور کردیا جائے۔ سنٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن (سی بی آئی) کے مطابق عدالت نے پولیس عہدہ داروں اور ڈاکٹروں کو ملی بھگت کرتے ہوئے کیس کو کمزور بنانے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کا مرتکب پایا اور پتہ چلا کہ ان ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم رپورٹس میں بھی ہیرا پھیری کی، شواہد کو مٹایا، لیکن انسانی حقوق سے متعلق قومی کمیشن نے بلقیس بانو کا کیس اُٹھایا اور پھر قانون و اِنصاف کے پہئے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر مقدمہ کی سنوائی ممبئی ہائی کورٹ منتقل کردی گئی اور سال 2008ء میں ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے ملزمین کو قتل اور اجتماعی عصمت ریزی کا مرتکب پاکر سزائے عمرقید سنائی۔ سال 2019ء میں سپریم کورٹ نے حکومت گجرات کو ہدایت دی کہ وہ بلقیس بانو کو نہ صرف 50 لاکھ روپئے (62,560 امریکی ڈالرس) معاوضہ ادا کرے بلکہ اسے رہنے کے لئے ایک مکان اور سرکاری ملازمت فراہم کرے۔ اس طرح کے کیس میں عدالت نے جس طرح 50 لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرنے کی ہدایت دی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلقیس بانو کے ساتھ پیش آیا جرم کا واقعہ معمولی نوعیت کا نہیں تھا۔بلقیس بانو کی لڑائی خود تنہا بلقیس بانو نے نہیں لڑی بلکہ حقوق نسواں کی بے شمار جہدکاروں اور تنظیموں نے بلقیس بانو کو متحدہ طور پر آسرا فراہم کیا -بلقیس بانو کو اپنی اور اپنے ارکان خاندان کی جانوں کے تحفظ کے لئے چھپ چھپ کر زندگی گزارنی پڑی، بار بار گھر تبدیل کرنے پڑے۔ جن خواتین کو اجتماعی عصمت ریزی کا نشانہ بنایا گیا اور کئی شخصیتوں، عالمی اداروں، تنظیموں کی نظر میں یہ مسلمانوں کے خلاف قتل عام کے جرائم کا ایک حصہ تھا۔ جب اسے وہ لوگ جن کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہو، صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر مرد و خواتین اور بچوں کو قتل کرنے، خواتین کا ریپ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ بہت خطرناک رجحان ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ سال 2002ء کے دوران گجرات میں ہوا۔ واضح رہے کہ ساورکر نے اپنی ایک کتاب چھ ’’گوروشالی ادھیائے‘‘ میں عصمت ریزی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر جائز ٹھہرایا۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ دفتر وزیراعظم اور دفتر مرکزی وزارت داخلہ کی مرضی و منشاء کے بغیر ان مجرمین کی رہائی ناممکن ہے۔ جہاں تک امیت شاہ کا سوال ہے، وہ مودی کے بااعتماد آدمی ہیں اور انھوں نے گجرات میں مودی حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔ ان مجرمین کی رہائی سے بلقیس بانو اور اس کی مدد کرنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک پیام واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ مودی کے ہندوستان میں اِنصاف کی لڑائی کا کیا انجام ہوتا ہے اور مقامی طور پر مسلمانوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کا کیا حال ہوتا ہے؟ چاہے وہ قتل عام ہو، اجتماعی عصمت ریزی کے مقدمات ان سب کے سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔