محمد ریاض احمد
وزیراعظم نریندر مودی نے پنجاب کے ایک عبوری پل پر 10 تا 15 منٹ کیا گذار لئے کہ بی جے پی قائدین اور بھکتوں نے آسمان سَر پر اُٹھالیا۔ مرکزی کابینہ سے لے کر دستوری عہدوں پر فائز شخصیتوں نے بھی تشویش ظاہر کی اور برہمی کا اظہار کیا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی تباہی آگئی ہو۔ مودی ، یوگی، امیت شاہ اور سنگھ پریوار کے قائدین کے دستوری حقوق چھین لئے گئے ہوں۔ جلیان والا باغ میں جنرل ڈائر نے جس طرح حقیقی قوم پرست ہندوستانیوں پر گولیوں کی بارش کرکے انہیں شہید کیا تھا۔ اسی طرح اس عبوری پل پر ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہو، ہاتھرس اور یوپی کے دوسرے مقامات پر دلت لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کرکے انہیں جس بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا، اسی طرح پنجاب کے اس عبوری پل پر بے شمار دختران ہند کی عصمت ریزی کے گھناؤنے واقعات پیش آئے ہوں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جس طرح مودی حکومت کی غلط پالیسیوں سے تنگ آکر کثیر تعداد میں کسانوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کردیا تھا۔ اسی طرح پنجاب کے اس عبوری پل پر ایک ساتھ 750 کسانوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہو۔ (مودی حکومت کے کسان دشمن زرعی بلز کے خلاف ایک سال سے زائد عرصہ تک جاری رہے، احتجاج میں 750 سے زائد کسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے) یا پھر وزیراعظم کے عبوری پل پر چند منٹ انتظار کرنے پر ایسے چیخ و پکار کی گئی، جیسے گجرات فسادات کے دوران ایک فرقہ پرست حیوان کے ہاتھوں اپنا پیٹ چیرے جانے اور اس میں پل رہے بچے کو تلوار کی نوک پر چڑھا دیئے جانے پر کسی مظلوم ماں نے چیخا ہو۔ حالانکہ وزیراعظم کو ایک معمولی سی چوٹ تک نہیں آئی۔ نہ کسی کسان سے ان کا آمنا سامنا ہوا اور نہ ہی کسانوں نے وزیراعظم کے قافلے پر سنگباری کی۔ اس واقعہ کے بعد اب تک ایس پی جی کی Blue Book کے قواعد پر ہر ایرا غیرہ نتھو خیرہ سوالات اٹھا رہا ہے۔ بی جے پی والوں نے تو اسے وزیراعظم کی سکیورٹی میں ایک بڑی کوتاہی قرار دے کر اس کیلئے راست پنجاب کی کانگریس حکومت کو ذمہ دار قرار دیا۔ آپ کو بتادیں کہ Blue Book دراصل اسپیشل پروٹیکشن گروپ (SPG) کا مینول ہے۔ یہ گروپ ملک کے اعلیٰ سرکردہ قائدین کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایس پی جی ہمیشہ وزیراعظم کے دورہ سے متعلق تفصیلات ریاست کی اعلیٰ قیادت بشمول وزرائے اعلیٰ، وزرائے داخلہ اور پولیس سربراہوں سے شیئر کرتا ہے۔ ایک خصوصی ٹیم کے ارکان وزیراعظم کے دورہ سے کم از کم ایک ماہ قبل ملاقات کرتے ہیں اور دورہ سے دو دن قبل سکیورٹی کی مشق بھی کی جاتی ہے۔ بہرحال وزیراعظم کی سکیورٹی کی ایک بڑی کوتاہی پر خود وزیراعظم نے صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند سے ملاقات کرکے انہیں تمام تفصیلات سے واقف کروایا۔ نائب صدرجمہوریہ، وینکیا نائیڈو بھی پریشان ہوگئے۔ یہاں تک کہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی پہنچ گیا۔ جہاں مرکز نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ پنجاب کے موقع پر سکیورٹی میں جو کوتاہی برتی گئی، وہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ فیروز پور جانے کے دوران پیش آئے اس واقعہ کے بارے میں عدالت عظمی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کسانوں کے جمع ہوجانے اور اچانک احتجاج کے نتیجہ میں وزیراعظم کو عبوری پل پر 15 تا 20 منٹ تک بھنسے رہنا پڑا۔ ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق انہوں نے عبوری پل پر صبر آزما لمحات گذارے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ یہ سکیورٹی کی ایک سنگین کوتاہی ہے۔ دوسری طرف حکومت پنجاب نے مرکز کو آگاہ کیا کہ اس تمام واقعہ کی تحقیقات کیلئے ایک پیانل بنایا گیا ہے جو اندرون تین یوم (پیر تک) اپنی رپورٹ پیش کردے گا۔
سپریم کورٹ میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ مرکز نے جہاں اس تمام واقعہ کو سکیورٹی کی سنگین کوتاہی قرار دیا، وہیں یہ بھی بتایا کہ وزیراعظم کی سکیورٹی میں برتی گئی سنگین کوتاہی سے عالمی سطح پر ہندوستان کی بدنامی ہوئی اور یہ واقعہ شرمندگی کا باعث بنا۔ یہ نہ صرف وزیراعظم بلکہ قومی سلامتی کا بھی معاملہ ہے ، لا اینڈ آرڈر کا معاملہ نہیں۔ دوسری طرف کانگریس کا دعویٰ ہے کہ فیروز پور میں ترقیاتی پراجیکٹس کا سنگ بنیاد تقریب میں حصہ لینے اور جلسہ سے خطاب کیلئے وزیراعظم جانے والے تھے، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ ریالی کے میدان میں ڈالی گئی 70 ہزار کرسیوں میں سے 69,300 کرسیاں خالی پڑی ہیں، عوام دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں، تب انہوں نے فیروزپور جانے کا ارادہ ترک کرکے بذریعہ کار بھٹنڈا سے یادگار شہیداں واقع حسینی والا جانے کا پروگرام بنایا۔ وہ عبوری پل پر ہی تھے کہ پل کے کنارے کسان جمع ہوئے جسے سکیوٹری کی ایک سنگین کوتاہی قرار دیا جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے صرف 15 تا 20 منٹ عبوری پل پر گذارے اور انہیں کچھ تکلیف بھی ہوئی ہوگی کیونکہ وزیراعظم کا مصروف ترین شیڈول ہوتا ہے، ان کے دورہ کا ایک ایک منٹ قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ پھر بھی وزیراعظم کسی عبوری پل پر 15 منٹ کی تکلیف برداشت نہیں کرسکے تو پھر ان کسانوں کی تکلیف کس قدر شدید رہی ہوگی جنہوں نے 15 تا 20 منٹ یا 15 تا 20 دن نہیں بلکہ ایک سال سے زائد عرصہ تک سیاہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کیا۔ کیا وزیراعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، بی جے پی قائدین اور بھکتوں کو کسانوں کی ان مصیبتوں کا ذرہ بھی احساس ہے۔ یہاں وزیراعظم کو ایک چوٹ تک نہیں آئی جبکہ زبردستی تھونپے گئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران زائد از 750 کسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے (کسانوں کی موت کے بارے میں بقول گورنر میگھالیہ ستیہ پال ملک، مودی کا کہنا تھا کہ ’’کیا کسان میرے لئے میرے ہیں؟‘‘) کاش! ستیہ پال ملک، مودی کے ان کسان دشمن الفاظ کے جواب میں کہتے کہ کسان آپ کیلئے نہیں آپ کی وجہ سے مرے ہیں)۔ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق مایہ ناز بلے باز پنجاب کانگریس کے لیڈر نوجوت سنگھ سدھو نے بھی یہی کہا ہے کہ کسانوں کو ایک سال تک انتظار کرنا پڑا، مصائب و مشکلات جھیلنے پڑے، وزیراعظم 15 تا 20 منٹ تک انتظار نہیں کرسکے۔
مودی جی کے عبوری پل پر کچھ دیر تک پھنسے رہنے کو سلامتی کا بہت بڑا مسئلہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ ہمارا دشمن نمبرون چین ہمارے ملک کی سرزمین پر قبضہ کرتا جارہا ہے۔ وہ مسلسل ہندوستانی علاقوں میں دراندازی کا مرتکب ہورہا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران امریکی کانگریس میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ چین، ہندوستان کے علاقہ میں کئی کلومیٹر تک گھس آیا ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ میں لداخ کی نمائندگی کرنے والے ایم پی کا دعویٰ ہے کہ چین نے صرف علاقہ لداخ میں 5000 مربع کیلومیٹر علاقہ پر قبضہ کرلیا، جبکہ 11 مارچ 2020ء کو ایوان میں بتایا گیا کہ لداخ کی 38 ہزار مربع کیلومیٹر اراضی چین کے قبضہ میں ہے۔ اب تو یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ وادی گلوان پر چین نہ صرف ایک عبوری پل تعمیر کررہا ہے بلکہ وہاں اس نے اپنا جھنڈا بھی لہرادیا ہے۔ اس سلسلے میں کانگریس رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے مودی سے خاموشی توڑنے کا مطالبہ کیا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری سرزمین پر چین کا قبضہ اس کی دراندازی وادی گلوان پر اپنا جھنڈا لہرانا، قومی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں ہے، کیا وزیراعظم کا ایک عبوری پل پر 15 تا 20 منٹ پھنس جانا، چین کی جارحیت سے کیسے زیادہ سنگین خطرہ ہے۔ آج جس انداز میں بی جے پی قائدین واویلا مچا رہے ہیں، انہیں چین کی دراندازی، چینی پی ایل اے کے ہاتھوں ہمارے سپاہیوں کی شہادتوں پر آواز اٹھانی چاہئے تھی اور وزیراعظم نریندر مودی سے یہ سوال کرنا چاہئے تھا کہ 56″ سینے کے حامل وزیراعظم چینی جارحیت پر خاموش کیوں ہیں؟ ان کی حکومت جوابی کارروائی سے گریز کیوں کررہی ہے؟ ایک اور بات ہے کہ داخلی کے ساتھ ساتھ خارجی سلامتی کا مسئلہ بھی رہا ہے لیکن اندرون ملک خود ساختہ قوم پرستوں نے اقلیتوں کیلئے عدم تحفظ کا ماحول پیدا کیا ہے دھرم سنسدوں کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ہندو نوجوانوں کو اُکسایا جارہا ہے۔ وہ داخلی سلامتی کا ایک خطرناک مسئلہ بن گیا ہے۔ مودی جی سے لے کر بی جے پی کے معمولی کارکن کو یہ جواب دینا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی زائد از 30 کروڑ ہے (مردم شماری 2011ء کے مطابق 14.23% آبادی بتائی گئی ہے) ان کے قتل عام کی باتیں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے مرنے مارنے کے حلف دلانا کیا داخلی سلامتی کیلئے ایک سنگین خطرہ نہیں ہے؟ پنجاب کے عبوری پل پر تو ایک مودی جی کی سکیورٹی کا سوال تھا جبکہ اب ملک کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی سلامتی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور یہ مسئلہ ان نام نہاد قوم پرستوں نے کیا جو خود کے مذہبی رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا کوئی سچا ہندوستانی بابائے قوم گاندھی جی کو گالیاں دے سکتا ہے ؟ ان کے خلاف فحش کلامی کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ آج جو لوگ وزیراعظم کی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہونے کی باتیں کررہے ہیں، کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ بلی بائی ایپ کے ذریعہ ممتاز مسلم خواتین کی تصاویر اَپ لوڈ کرکے ان کی نیلامی کا اعلان کیا، سکیورٹی کی سنگین کوتاہی نہیں۔ ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلم اور دلت نوجوانوں کے قتل ، داخلی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ نہیں، دلت لڑکیوں کی جس طرح اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات پیش آئے ، کیا اس سے بھی داخلی سلامتی کو خطرہ پیدا نہیں ہوتا۔ کورونا وائرس کے دوران ہزاروں نعشوں کو گنگا میں بہانا اور گنگا کنارے ریت میں دبانا، داخلی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں تھا۔ آج ہندوستان کے وزیراعظم کی جان کو نہیں بلکہ ہندوستان کو اور اس کی روح کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور یہ خطرات ہندوتوا، ہندو راشٹر کی رٹ لگانے والوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ کاش! مودی اور ان کی حکومت اس سچائی اور حقیقت کو تسلیم کرتی۔