مودی کے شہریت قانون پر دی گارجیان کا نقطہ نظر۔ تمام کے لئے خطرناک

,

   

بیرونی ممالک سے ظلم وزیادتی کاشکار ہونے والی کی مدد کے لئے نئے ہندوستانی قانون کی تجویز مگر گھر میں رہنے والوں کے درمیان میں اس کی گہری فرقہ وارانہ تفریق

حالیہ دنوں میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر اتر کر نئے ہندوستانی شہریت قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں‘ جنھیں پولیس کی بربریت کابھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نریندر مود ی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں یہ سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہیں۔

مظاہرین کا پروزور انداز میں یہ کہنا ہے کہ یہ احتجاج نئی سمت کی طرف جانے کی وجہہ سے نہیں بلکہ ملک کو خطرناک راستے پر جانے سے روکنے کے لئے کی جانے والی جدوجہد ہے۔

یہ نیا قانون اس بات کا ثبوت ہے کہ مسٹر مودی کی ہندو قوم پرستی کی پیشکش قابل تقلید نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایسا قانون ہے جس سے تکثریت او رسکیولرزم کی بنیادوں کو خطرہ لاحق ہے۔ پچھلے سا ت دہوں سے جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں اس پر خوف کا سایہ منڈلائے گا۔

مذکورہ وزیراعظم نے بڑی خوشی کے ساتھ ٹوئٹ کیاکہ”یہ وقت امن کی برقراری‘ اتحاد اور بھائی چارہ کا وقت ہے“۔حیرت انگیز طور پر بی جے پی یہ دعوی کررہی ہے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جوحقوق کو ہٹاتا نہیں بلکہ بڑھاتا ہے۔

اس سے تیزی کے ساتھ مسلم اکثریتی والے ممالک سے آنے والے ہندوؤں‘ جین‘بدھسٹوں‘ پارسیوں اور عیسائیوں کو شہریت دی جائے گی‘جن پر کئی سالوں غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر ہندوستان میں رہنے کا الزام عائد ہے۔

مگر کوئی بھی اس کے سیاق وسباق کو سنجیدگی کے ساتھ شمولیت کے اقدام کے طور پر نہیں مان سکتا ہے۔فطری طور پر یہ ان مسلمانوں کے لئے اخراج ہے جو ظلم وزیادتی کاشکار ہونے کی وجہہ سے نقل مقام کررہے ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ مسلم شہری ”حقیقی“ طور پر ہندوستانی نہیں ہیں۔

ہندوستان میں غیر ملکیوں او رشہریوں پر بھی لاگو ہونے والے دستوری تحفظات کے ساتھ یہ ایک بڑا کھلواڑ ہے۔

مجوزہ طور پر مسلمانوں کو ہندوستان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اس قسم کی سونچ کی نفی میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ مظلم کی خبریں کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں احمدیہ (خارج از اسلام) اوردیگر مسلم طبقات کے ساتھ ہونے والی ظلم وزیادتیوں کی اطلاعات بھی ایسی سونچ کی نفی کرتی ہیں۔

اگر وہ مسٹر مودی کے ملک میں ائیں گے تو انہیں غیرقانونی پناہ گزین ہی تصور کیا جائے گا۔ایک ایسے ملک میں جہاں پر اکثریت کے پاس مناسب دستاویزات نہیں ہے‘ ہندوستانی شہریوں کو ان کے موقف پر خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

ایک نظر شمال مشرق کی ریاست آسام کی طر ف ڈالیں جہاں پر دو ملین کے قریب لوگ این آر سی سے باہر کئے جانے کی وجہہ سے پریشان ہیں اور یہ کبھی کبھار کی سادہ لوح غلطیوں کا نتیجہ ہے۔شہری اب غیرملکی میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

تحویلی کیمپوں کی پہلے سے ہی تعمیر شروع ہوگئی ہے۔

مذکورہ ہوم منسٹر امیت شاہ نے غیر قانونی تارکین وطن کو دیمک قراردیا ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان ایک کو بھی برداشت نہیں کرے گا۔

بار بار قومی سطح پر این آر سی کی تجویز پیش کی جارہی ہے