راج دیپ سردیسائی
بجٹ کی پیشکشی کے ہفتے میں مملکتی وزیر فینانس سے توقع رہتی ہے کہ وہ نارتھ بلاک کی سرکاری پابندی والے حدود تک خود کو محدود رکھتے ہوئے اہم دن کیلئے تیاری کرے۔ لیکن جونیر فینانس منسٹر انوراگ ٹھاکرے غلط وجوہات کے ساتھ خبروں میں آگئے۔ دہلی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے ہجوم کو جوش دلانے والی تقریر کی، جہاں انھوں نے ’’دیش کے غداروں‘‘ سے نمٹنے کیلئے ہجوم کو بھڑکاتے دیکھا گیا، جو تیزی سے وائرل ہوگیا۔ ایک مرکزی وزیر کا اس قدر متکبرانہ انداز میں اشتعال انگیز تقریر کرنا قانون کی حکمرانی کیلئے عدم احترام کا کھلا مظاہرہ ہے اور ضابطہ اخلاق کی حدوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے ٹھاکر کو 72 گھنٹے کیلئے انتخابی مہم سے روک دیا، لیکن یہ معاملہ ایک بنیادی سوال اٹھاتا ہے: کیا کوئی الیکشن بہرقیمت جیتنا فرقہ وارانہ امن کو یقینی بنانے سے زیادہ اہم ہے؟ اور وزارتی ترجیح کیا ہونی چاہئے … بجٹ اور معیشت پر توجہ مرکوز کرنا یا سڑکوں پر امکانی ہندو۔ مسلم انتشار کو بھڑکانا۔
عام حالات میں اس طرح کے سوالات نظرانداز کئے جاسکتے ہیں، کیونکہ انتخابات جیتنے اور اچھا بجٹ تیار کرنے کے قواعد مختلف ہیں۔ مگر شاید یہ عام حالات کہے جاسکتے ہیں، جیسا کہ شہریت (ترمیمی) قانون پر سڑکوں پر احتجاج کی تصویریں بڑھتی جارہی ہیں اور معیشت کے بارے میں فکرمندی شہ سرخی کیلئے مسابقت کررہی ہے۔ مرکزی بجٹ اور دہلی کے انتخابات میں صرف ایک ہفتے کا فرق ہے۔ بجٹ ایسے وقت پیش کیا گیا جبکہ معیشت سنگین حالات سے گزر رہی ہے، جبکہ دہلی انتخابات کا وقت کچھ ایسا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ابھی ابھی جھارکھنڈ میں اقتدار کھوئی اور مہاراشٹرا میں چکمہ کھائی ہے۔
وزارت فینانس میں ٹھاکر کی سینئر نرملا سیتارامن پہلے ہی گزشتہ آٹھ ماہ سے تنقیدی نظروں میں رہی ہیں۔ ملک کی پہلی مکمل وقتی وزیر فینانس کی حیثیت سے سیتارامن پر بلاشبہ سخت نظریں رہیں گی۔ روایت شکن تبدیلی کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وزیر کا ہر اقدام اور ہر لفظ پر باریک بینی سے نظر ڈالی جاتی ہے، جو کچھ حد تک غیرمنصفانہ ہے کیونکہ معیشت کا زیادہ تر بگاڑ سیتارامن کو ورثہ میں ملا ہے۔
غلط قیاس کے ساتھ کیا گیا نوٹ بندی کا عمل اور خراب ڈھانچہ والا گڈز اینڈ سرویسیس ٹیکس (جی ایس ٹی) سسٹم ترقی میں گراوٹ کیلئے بنیادی طور پر ذمہ دار رہے ہیں۔ ماقبل بجٹ اجلاسوں میں ماہرین معاشیات اور صنعت کاروں کے ساتھ وزیراعظم کی تصویر کشی جبکہ وزیر فینانس کی عدم موجودگی نمایاں طور پر محسوس کی گئی۔ یہ سب محدود اتھارٹی کی حامل وزیر کے تعلق سے بدترین خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔
ظاہری چیزوں سے فرق پڑتا ہے جیسا کہ نریندر مودی حکومت کو ناراضگی کے اِس شدید سرما میں سامنا ہورہا ہے جس نے ملک کے کئی حصوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جب سے یہ حکومت مئی 2019ء میں زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار پر واپس ہوئی، آمرانہ حکمرانی کا تاثر ظاہر ہوا ہے جس نے اپنی پارلیمانی اکثریت کو استعمال کرتے ہوئے اکثریتی نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ٹھان لیا ہے۔ شہ سرخی والی خبریں انتشار والے مسائل سے غالب رہے ہیں، چاہے وہ آرٹیکل 370 ہو یا سی اے اے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) تعطل۔ حتیٰ کہ حکومت کی سرمایہ کار کا حوصلہ بڑھانے کے مقصد سے سلسلہ وار اعلانات کے ذریعے معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کا بنیادی سطح پر محدود اثر دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ پیام رسانی بالکلیہ غلط ہوئی ہے: تنازع سے دوچار سیاسی ایجنڈہ ترقی پر مبنی معاشی ایجنڈے کے ساتھ ٹکرا رہا ہے۔ سب کی ترقی کا نظریہ مخصوص اور امتیازی قانون سازی کی سیاست کے ساتھ یکجا نہیں ہوتا ہے۔ بالخصوص سب کا وشواس والا نظریہ مودی حکومت کی نیو انڈیا کی تعمیر کیلئے پُرشور اپیل سے غائب ہے۔ نئے ہندوستان کا آئیڈیل امنگوں سے بھرپور انڈیا کی تعمیر ہے، جہاں نوکریاں، تعلیم اور صحت کو شناختی سیاست پر ترجیح دی جائے۔ مودی 1.0 نے بڑے پیمانے پر توجہ اور اچھی طرح بنائی گئی اسکیمات کے ذریعے عوام میں امید کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی تھی کہ ’’میرا دیش بدل رہا ہے‘‘۔
اس کے برعکس مودی 2.0 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشی بقاء کے کلیدی مسئلہ پر توجہ مرکوز کرنے اور بھٹک جانے کے درمیان پھنس گئی ہے۔ یہ بھٹکنا دانستہ ہوسکتا ہے یا نہیں بھی، مگر فرقہ پرستی کے برتن کو ایسے مسائل سے اُبالا جارہا ہے جو بعض ایسے اہم آبادیاتی گروپوں میں تک بے اعتمادی کو صرف گہرا کریں گے جنھوں نے گزشتہ سال مودی زیرقیادت حکومت کیلئے جوش کے ساتھ ووٹ ڈالے تھے۔
مثال کے طور پر انڈیا ٹوڈے گروپ کے موڈ آف دی نیشن پول میں 43% ہندوستانیوں نے کہا کہ سی اے اے۔ این آر سی نوکریوں اور معاشی ترقی کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے؛ بے روزگاری 32% کیلئے نمبر ایک مسئلہ ہے، جس کے بعد زرعی بدحانی اور بڑھتی قیمتوں کا معاملہ ہے۔ حکومت کی پالیسیوں سے بے ربط ہوجانے کا احساس نوجوانوں میں سب سے زیادہ ہے، جو مودی کیلئے اہم ووٹرز ہیں۔ یہی رابطے کا فقدان ہے جو حکومت کو فکرمند کرنا چاہئے جب اس کے وزراء احتجاجیوں کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے انھیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ (قوم دشمن) قرار دیتے ہیں جن کو گولی مار دینا چاہئے۔ یا جب وزیر داخلہ ووٹروں سے اپیل میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ای وی ایم بٹن دباتے ہوئے ایسے غصہ کا اظہار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ شاہین باغ کے مکینوں کو برقی شاک محسوس ہو۔ کٹر بی جے پی ووٹر کو شاید ایسی اشتعال انگیز لفاظی سے جوش حاصل ہوتا ہے لیکن نظریاتی طور پر کم وابستگی رکھنے والے افراد کیلئے بڑھتا معاشی اضطراب، بڑھتی سماجی نفرت اور پُرشور سیاسی ٹکراؤ مل کر خطرناک بیزارگی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس سے کسی کو بھی حیرانی ہوگی کہ کون واقعی ٹکڑے ٹکڑے گینگ ہے جو ’’پھوٹ ڈالو اور حکمرانی کرو‘‘ چاہتا ہے؟
اختتامی تبصرہ
انوراگ ٹھاکر وزیر بننے سے کافی عرصہ قبل صدر انڈین کرکٹ بورڈ تھے جب ان کو جھوٹی قسم اور تحقیر عدالت کی پاداش میں سپریم کورٹ سے معذرت خواہی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ کیا وزیر موصوف اِس مرتبہ تشدد کیلئے بھڑکانے پر معذرت خواہی کریں گے؟ یا یہ ’’نیا‘‘ انڈیا ہے جہاں منسٹرز شوٹ کرکے نکل بھاگ سکتے ہیں اور اُن کو سزا کا کوئی خوف نہیں؟
[email protected]