موذی وائرس سے لاپرواہی کیوں؟

   

Ferty9 Clinic

حادثہ ، دردِ جدائی کا کچھ ایسا گذرا
آپ بھی غم نہ کریں اس کا ، جو گذرا گذرا
موذی وائرس سے لاپرواہی کیوں؟
کوروناوائرس کی دوسری لہر نے عوام کو پھر سے خوفزدہ کرنا شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹرا، پنجاب کے بشمول دو ریاستوں میں کورونا کی صورتحال نازک بتائی جارہی ہے۔ کابینی سکریٹری راجیو گوہا نے جمعہ کے دن اعلیٰ سطحی اجلاس کی قیادت کرتے ہوئے ملک میں کوروناوائرس کے بڑھتے کیسوں کا جائزہ لیا۔ تمام ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کے چیف سکریٹریز، ڈی جی پولیس اور ہیلت سکریٹریز نے اجلاس میں حصہ لیا اور ان کی اصل فکر کورونا سے عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات کی طرف تھی۔ گذشتہ دو ہفتوں سے کوویڈ۔19 سے مرنے والوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہیکہ عوام سے زیادہ سیاستداں لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں اور ہر پارٹی کی جانب سے بڑے بڑے جلسوں کے لئے عوام کو اکھٹا کرنے کے علاوہ دوسری ریاستوں سے عوام کو لاکر جلسوں میں بٹھایا جارہا ہے جو کوروناوائرس کے پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ حکومت اور حکام ایک طرف عوام کو احتیاطی اقدامات کرنے اور سماجی دوری برقرار رکھنے، ماسک لگانے کا پابند کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کیلئے عوام کا ہجوم جمع کرنے سے گریز نہیں کررہی ہیں۔ اپریل کے وسط تک کوروناوائرس کا قہر مزید جان لیوا ہونے اور اس کا یہ اثر جون تک برقرار رہنے کی رپورٹ کے بعد حکومت کو فوری سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی عوام الناس کو اپنی جان کی حفاظت کی ذمہ داری خود لینی ہوگی۔ کورونا کے بلائے جان مرض کے حوالے سے تشویشناک ترین رپورٹ یہ ہیکہ روزانہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ایک دن میں 81000 نئے کیسیس سامنے آئے ہیں لیکن ایک طرف صحت شعبہ کے ماہرین نے اس وائرس کی دوسری لہر کو زیادہ خطرناک بتایا ہے تو دوسری طرف اس وائرس سے اموات کی تعداد کم ہونے کی اطلاع دی ہے۔ اس طرح کی رپورٹ تیار کرنے والوں کے بارے میں سختی سے جانچ ہونی چاہئے۔ مہاراشٹرا میں کورونا کی دوسری لہر میں مرنے والوں کی تعداد کم ہے جبکہ کورونا کی پہلی لہر میں مہاراشٹرا میں اموات کی شرح زیادہ تھی۔ حکام کو پہلے سے زیادہ چوکس ہونے کی ضرورت ہے۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا ادھوٹھاکرے نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اشارہ تو دیا ہے لیکن یہ لاک ڈاؤن کوروناوائرس پر قابو پانے کا اصل ہتھیار نہیں ہے۔ ضروری احتیاط لازمی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہیکہ کورونا صرف ایک وبا نہیں بلکہ ایک مہلک لہر ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ احتیاط ہے اور پروٹوکول پر سختی سے عمل کرنا ہے لیکن ہورہا یہ ہیکہ عوام لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پارٹیاں کرتے ہیں، گائیڈ لائن پر عمل نہیں کرتے، ویکسین نہیں لیتے۔ اس وبا سے ساری دنیا میں لاکھوں اموات ہوچکی ہیں۔ کروڑہا لوگ متاثر ہیں۔ اس وائرس کی دوسری لہر سے معصوم بچے اور نوجوانوں کے زیادہ متاثر ہونے کی اطلاع بھی تشویشناک ہے۔ بچوں کے ضمن میں جو اعدادوشمار آرہے ہیں وہ پریشان کن ہیں۔ ہندوستانیوں کی بڑی تعداد کو ویکسین دینے کا کام بھی سست روی سے جاری ہے۔ عوام پہلے ہی سے مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ٹیکسوں اور مہنگائی کا شکار ہیں اور اب انہیں وائرس سے نمٹنے میں حکومت کی کوتاہیوں اور بدانتظامی کا بھی شکار ہونا پڑرہا ہے۔ مودی حکومت اپنی کارکردگی کی مارکٹنگ میں ماہر ہے اس لئے عوام کو خرابیوں کا پتہ چلنے کے باوجود کچھ ردعمل ظاہر کرنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے۔ تازہ ترین کوروناوائرس کی لہر کی مثال لیجئے۔ فروری سے ہی دوسری لہر کے کیس آنے شروع ہوئے۔ اپریل آنے تک بی جے پی حکومت اسمبلی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ بی جے پی کے تمام اعلیٰ قائدین نشستیں جیتنے کی حکمت عملی کرتے رہے اور ادھر کورنا کی دوسری لہر عوام کی سانسوں کو اکھاڑنے کی شدت کا مظاہرہ کرتی رہی۔
نئے مالیاتی سال کے نئے چیلنجس
ہندوستانی معیشت کا بدترین سال گذر گیا ہے لیکن 2021-22ء میں نیا مالیاتی سال اپنے ساتھ نئے چیلنجس لیکر آیا ہے کیونکہ گذشتہ کی طرح اس سال میں کورونا کی وجہ سے معاشی صورتحال ابتر ہی رہے گی۔ حکومت کے لئے صحت عامہ اور معاشی امکانات دونوں کو اولین ترجیح دینی ہے۔ 31 مارچ کو ختم ہونے والا مالیاتی سال یکم ؍ اپریل سے نئے مالیاتی سال میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس سال میں غیرمعمولی معاشی اتھل پتھل کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ وبا کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں ٹھپ رہیں گی تو پھر مالیاتی بحران کو دو رکرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ خط غربت کی سطح میں اضافہ ہوگیا ہے۔ لیبر طبقہ پریشان ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ ماضی کے مقابل اس سال کی معاشی صورتحالا کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ لیبر طبقہ سے لیکر پڑھا لکھا طبقہ بھی بیروزگاری کی مار کھا کر جی رہا ہے۔ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان نے بیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کرلی۔ اس طرح کے کئی واقعات ملک کے کونے کونے میں رونما ہوتے ہیں لیکن حکومت اپنی سیاسی طاقت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش میں مبتلاء ہے۔ گذشتہ مالیاتی سال کا آغاز مکمل لاک ڈاؤن میں ہوا تھا لیکن اس سال دوسرے قومی لاک ڈاؤن کا امکان نہیں ہے لیکن انسانی زندگیوں پر پڑنے والے معاشی اثرات خطرناک ہیں۔ حکومت نے اپنے سالانہ بجٹ میں صحت عامہ پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے اور خانگی سرمایہ کے لئے مستحکم فضا بنانے پر توجہ دی ہے۔ حکومت کی جملہ بازی کا تسلسل یوں ہی جاری رہا اور عملی اقدامات اور دورتک نظر نہ آئیں تو عوام کو ہوش میں آجانا چاہئے۔ جب تک عوام خود کے مستقبل کی فکر نہ کریں گے ان کو کئی مسائل کا یوں ہی سامنا کرتے رہنا پڑے گا۔ سوال یہ ہیکہ آیا عوام اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔