قاری محمد مبشر احمد رضوی قادری
بُرہانِ الاولیا‘ اعلٰحضرت عظیم البرکت‘ حافظ و قاری الحاج مفتی الشاہ احمد رضا خان قادری برکاتی ‘ بریلویؒ سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ کے ۳۹ ویں امام و شیخ طریقت ہیں۔ اعلٰحضرت علیہ الرحمہ کا سینہ عشق رسول ﷺ کا خزینہ تھا۔ آپ کا اُٹھنا بیٹھنا‘ کھانا پینا‘ رہن سہن‘ عبادت و ریاضت‘ جود و سخا اور تمام اعمال حسن سیرت کا مکمل آئنہ دار تھے۔ تادمِ زیست زبانِ مبارک پر درود و سلام کے نغمے جاری رہے۔ طرز تکلم اتنا پیارا تھا کہ جب بھی کلام فرماتے تو الفاظ موتیوں کی طرح چھلک کر دل میں اُتر جاتے تھے۔ کبھی بھی آپ نے آئینہ شریعت کے خلاف لب کشائی نہیں فرمائی اور نہ کسی کی دلآزاری کی۔ اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ تادمَ آخر ادافرماتے رہے۔
رسول کریم ﷺ اور اُن کی اٰلِ پاک کا اس قدر احترام فرماتے کہ کوئی سید صاحب آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے تو آپ اُٹھ کر اُنکا استقبال کرتے ہوئے دست بوسی فرماتے۔ صاحبانِ سِیَرنے تعظیم آ ل رسول ﷺ سے متعلق ا علٰحضرت ؒ کا ایک ایمان افروز واقعہ کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ امام اہلسنت کی سواری کے لئے پالکی دروازے کے سامنے لگادی گئی تھی سیکڑوں مشتاقانِ دید انتظار میں کھڑے تھے۔ وضو سے فارغ ہوکر کپڑے زیب تن فرمائے۔ عمامہ باندھ کر عالمانہ و قار کے ساتھ باہر تشریف لائے۔ چہرۂ انور سے فضل و تقویٰ کی کرن پھوٹ رہی تھی۔طلعتِ جمال کی دلکشی سے مجمع پر ایک رقت انگیز بے خودی کا عالم طاری تھا گویا پروانوں کے ہجوم میں ایک شمع فروزاں مسکرارہی تھی اور عندلیبان شوق کی انجمن میں ایک گل رعناکھلا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے سواری تک پہنچنے کا موقع ملا۔پابوسی کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد کہاروں (خدّام)نے پالکی اٹھائی۔ آگے پیچھے‘ داہنے بائیں نیاز مندوں کی بھیڑ ہمراہ چل رہی تھی۔ پالکی لیکر تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ امام اہل سنت نے آوازدی ’’پالکی روک دو‘‘ حکم کے مطابق پالکی رکھدی گئی۔ ہمراہ چلنے والا مجمع بھی وہیں رک گیا۔ اضطراب کی حالت میں باہر تشریف لائے۔ کہاروں کو اپنے قریب بلایا اور بھٔرائی ہوئی آواز میں دریافت کیا ’’آپ لوگوں میں کوئی آلِ رسول تو نہیں ہے؟ اپنے جداعلیٰ کا واسطہ سچ بتائیے میرے ایمان کا ذوق لطیف ’’تن جاں‘‘ کی خوشبو محسوس کر رہا ہے‘‘۔ اِس سوال پر اچانک اُن میں سے ایک شخص کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ پیشانی پر غیرت و پشیمانی کی لکیریں اُبھر آئیں۔ بے نوائی‘ آشفتہ حالی اور گردش ایام کے ہاتھوں ایک پامال زندگی کے آثار اس کے جسم سے آشکار تھے۔کافی دیرتک خاموش رہنے کے بعد نظر جھکائے ہوئے دبی زبان سے کہا :’’مزدور سے کام لیا جاتا ہے۔ ذات پات نہیں پوچھی جاتی‘‘ آہ! آپ نے میری زندگی کا ایک سر بستہ راز فاش کردیا سمجھ لیجئے کہ میں اسی چمن کا ایک مرجھایا ہوا پھول ہوں جس کی خوشبو سے آپ کی مشام جاں معطر ہے۔ رگوں کا خون نہیں بدل سکتا۔ اس لئے آل رسول ہوں نے سے انکار نہیں ہے۔ لیکن اپنی خانماں برباد زندگی کو دیکھ کر یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ چند مہینے سے آپکے اس شہر میں آیا یوں کوئی ہنر نہیں جانتا کہ اُسے اپنا ذریعئہ معاش بناؤں ۔ پالکی اُٹھانے والے مزدوروں سے رابطہ قائم کرلیا ہے۔ ہر روز سویرے ان کے جھنڈ میں آکر بیٹھ جاتا ہوں اور شام کو اپنے حصہ کی مزدوری لے کر اپنے بال بچوں میں پہنچ جاتا ہوں ۔ ابھی اِس کی بات تمام بھی نہ ہوپائی تھی کہ لوگوں نے پہلی بار تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ دیکھا عالم اسلام کے ایک مقتدر امام کی دستار اس کے قدموں پر رکھی ہوئی تھی اور وہ برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر التجا کر رہا تھا۔معزز شہزادے! میری گستاخی معاف کردو۔ لاعلمی میں یہ خطا سرزد ہوگئی ہے۔ ہائے غضب ہوگیا جن کے کفشِ پاکاتاج میرے سر کا سب سے بڑا اعزاز ہے اُنکے کاندھے پر میں نے سواری کی۔ قیامت کے دن اگر کہیں سرکار دو عالم ﷺ نے پوچھ لیا کہ ــ’’احمد رضا کیا میرے فرزندوں کا دوش نازنیں اسی لئے تھا کہ وہ تیری سواری کا بوجھ اُٹھائیں؟ تو میں کیا جواب دوں گا۔ اِس وقت بھرے میدانِ حشر میں میرے ناموس عشق کی کتنی بڑی رسوائی ہوگی؟
آہ! اِس ہولناک تصویر سے کلیجہ شق ہوا جارہا ہے۔ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ جس طرح ایک عاشق دلگیر روٹھے ہوئے محبوب کو مناتا ہے بلکل اسی انداز میں وقت کا ایک عظیم المرتبت امام اِس کی منت و سماجت کرتا رہا اور لوگ اپنی آنکھوں سے عشق رسولﷺ کا یہ رقت انگیز تماشہ دیکھتے رہے۔
یہاں تک کہ کئی بارزبان سے معافی کردینے کا اقرار کرا لینے کے بعد امام اہلسنت نے پھر اپنی ایک آخری التجائے شوق پیش کی۔ چونکہ راہ عشق میں خون جگر سے زیادہ وجاہت و ناموس کی قربانی عزیز ہے اِس لئے لاشعوری کی اِس تقصیر کا کفارہ جبھی ادا ہوگا کہ تم پالکی میں بیٹھو اور میں اُسے کاندھے پر اُٹھاؤں۔اِس التجا پر جذبات کی تلاطم سے لوگوں کے دل ہل گئے۔ و فوراً ثر سے فضامیں ـــچیخیں بلند ہو گیئں۔ ہزار انکار کے باوجود آخر سید زادہ کو عشق جنوں خیز کی ضدپوری کرنی پڑی۔
آہ ! وہ منظر کتنا رقت انگیز اور دل گداز تھا جب اہل سنت کا جلیل القدر امام کہا روں کی قطار سے لگ کر اپنے علم و فضل ‘ جبہ و دستار اور اپنی عالمگیر شہرت کا سارا اعزاز سرفرازیٔ حبیبؐ کے لئے ایک گمنام مزدور کے قدموں پر نثار کر رہا تھا۔
شوکت عشق کا یہ ایمان افروز نظارہ دیکھ کر پتھروں کے دل پگھل گئے۔ کدورتوں کا غبار چھٹ گیا‘ غفلتوں کی آنکھ کھل گئی اور دشمنوں کو بھی مان لینا پڑا کہ آل رسول کیساتھ جس کے دل کی عقیدت و اخلاص کا یہ عالم ہے رسول ﷺکے ساتھ اِس کی وارفتگی کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولائے کریم رسول معظم ﷺ اور انکی آلِ پاک کی تعظیم و توقیر کا جذبۂ خیر عطا فرمائیں۔ آمین