امجد خان
میرے پیارے بچو!
مَیں عثمانیہ یونیورسٹی ہوں، میں وہی ہوں جسے آپ تمام اہلیان تلنگانہ بڑے ہی پیار و محبت اور عقیدت کے ساتھ ’’او یو‘‘ بھی کہتے ہیں اور اب تک محبت و الفت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ میری حفاظت کرنے پر شکریہ!
تاحال آپ کے ہی احوال و کوائف سننے اور دیکھنے والی میں اب کھلے دل سے آپ لوگوں سے مخاطب ہوں۔ 100 سال تک آپ لوگوں کی دیکھ بھال اور ترقی کے مدارج طئے کرانے والی میری ہی حالت اب بے حد خراب ہے۔ میرے بچو! اب میں اپنی ہی حالت زار پر نظر ڈالتی ہوں تو نفرت سی ہوتی ہے۔ نظام دور حکومت 1917ء کو میں نے جنم لیا ہے اور آپ سمجھتے ہوں گے کہ 100 سال میں نے اپنی عمر کے مکمل کرلئے ہیں لہذا اس طویل عمر میں میری حالت یہی ہوسکتی ہے، مگر میری یہ حالت زار درازی عمر کی وجہ سے نہیں ہے۔ دراصل میری نگہداشت و آبیاری کرنے والے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگر آپ لوگ ذرا سی دلچسپی لے کر میری دیکھ بھال و نگہداشت اور میرے احیاء کیلئے کام کریں گے تو میں اس بات کا وعدہ کرتی ہوں کہ جس طرح میں نے ماضی میں آپ لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے ترقی کے منازل طئے کراتی تھی، اسی طرح آپ کی نسل در نسل کو آسمان کی بلندیوں پر پہونچاؤں گی۔
میری گود میں زیور علم سے آراستہ ہونے والے اور میری امداد پانے والوں میں حکمراں، عہدیداران، دانشوران، سائنس داں، ملازمین اور تاجرین سبھی شامل ہیں۔ اگرچہ کہ میرے ایسے تمام فرزندان میرے لئے قابل فخر ہیں مگر سماج اور ملک کیلئے ایسے بہترین تراشیدہ ہیروں کو دینے والی میری ہی حالت ناقابل بیان ہے کیونکہ میری دیکھ ریکھ کرنے والوں کا ہی قحط پڑا ہے۔ میرے بچو! میں آپ لوگوں سے اپنی حالت زار کا ذکر اس لئے کررہی ہوں کہ ملک و ملت کیلئے میری جانب سے انجام دی گئی خدمات کی یاد دہانی پر ہی سہی آپ میری حالت زار پر توجہ دیں گے اور میرے اندر امید کی ایک چھوٹی سی کرن ہے جو اس بات کی طرف مجھے اشارہ دیتی ہے کہ کم از کم آپ لوگ میری حالت زار اور شاندار ماضی کی تاریخ کو سن اور پڑھ کر شاید ضرور میری طرف متوجہ ہوں گے اور یہی امید مجھے آپ سے مخاطب کرنے پر مجبور کررہی ہے۔
میرا قیام عین آزاد بھارت کی جدوجہد عروج پر ہونے کے وقت عمل میں آیا تھا، میری گود میں شہروں اور قریوں کے کونے کونے سے میرے بچوں نے آکر جگہ پائی ہے مگر میں کبھی بھی کسی کے ساتھ بھی بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک نہیں کیا بلکہ ایک ماں جیسے اپنے تمام بچوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتی ہے، ٹھیک وہی رویہ میں نے بھی اپنایا اور میری گود میں آنے والے ہر بچے کی بہترین پرورش کی ہے اور ضیائے علم کے ذریعہ ان تمام کی زندگیوں کو روشن کیا ہے اور میں نے اپنی گود کے ذریعہ ہی ذات پات، غریب و امیر، رنگ و نسل، جنس اور علاقہ واریت کے خلاف سبق سکھایا ہے اور میرے ہونہار فرزندان نے ملک و ملت کی ترقی میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اور میرا ماضی تاریخ کے سنہرے اوراق میں درخشاں لکھا گیا ہے، مگر میرا حال مختلف مسائل و مشکلات کا سامنا کررہا ہے، لہذا میں اپنے مسائل و مشکلات کو تفصیلی طور پر آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں، میرے لئے کام کرنے والے ملازمین کے تنخواہیں تک نہیں مل رہی ہیں اور میں معاشی مشکلات میں گھری ہوئی ہوں، میرے لئے اور ملک کے بچوں کے لئے خدمات انجام دے کر وظیفہ پر سبکدوش ہونے والوں کو وظیفہ بھی دینے کے لائق نہیں ہوں اور مجھے ویسے ہی برا بھلا کہا جارہا ہے جیسے والدین اپنی اولاد کیلئے جائیداد نہ رکھنے پر برا بھلا کہا جاتا ہے۔ میری گود میں حصول علم کیلئے آنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، مگر انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والوں کی بڑی کمی ہے یعنی اسٹاف کے تقررات نہیں ہورہے ہیں۔
میری دیکھ بھال اور میری ترقی کا بیڑہ اُٹھانے والی ’’مجلس انتظامیہ‘‘ ریاست کی علیحدگی کے بعد سے آج تک وجود میں نہیں آئی ہے اور میرے بڑے بیٹے کی طرح میری خدمت کرنے والا وائس چانسلر 6 ماہ سے نہیں ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ ٹھپ اور بدعنوانیاں عروج پر ہیں۔ میرے بچوں میں آپسی تال میل نہیں ہے لہذا مجھے میرے بڑے بیٹے کو واپس لاکر دو تاکہ وہ میری خدمت کرسکے اور میری ترقی کیلئے کام کرنے والی مجلس انتظامیہ بھی چاہئے تاکہ طلبہ دوست فیصلوں کو لینے اور عمل آوری میں تاخیر نہ ہو۔
بھیک دینے کے مانند میرے لئے تھوڑا سا بجٹ مختص کررہے ہیں اور ناکافی بجٹ کے ذریعہ زندگی گذارنے کا حکم دیا جارہا ہے مگر میں اس ناکافی بجٹ کے ذریعہ اپنے بچوں کی پرورش بڑی مشکل سے کررہی ہوں اور میرے بچوں کی پرورش کرنے والے اساتذہ کو تنخواہیں ادا نہیں کرپارہی ہوں۔ خدمات سے سبکدوش ہونے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اساتذہ کی کمی ہوگئی ہے حالانکہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہزاروں کا اسٹاف ہوا کرتا تھا اور میرے اندر بہار ہوا کرتی تھی مگر 2013ء سے آج تک اسٹاف کا تقرر ہی نہیں ہوا ہے اور درکار سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم اچھے انداز میں نہیں ہوپارہی ہے اور میرے نام پر وقف کردہ سینکڑوں ایکڑ اراضی پر قبضے کئے گئے ہیں، کالجس، تعلیمی رونق کے بجائے بدعنوانیوں کے اَڈے بنے ہوئے ہیں اور بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے گھوڑوں کے اصطبل ہی میرے بچوں کیلئے ہاسٹلس بن گئے ہیں۔
میرے پیارے بچو! ذرا میری حالتِ زار پر غور کرو کیونکہ میری گود سے سیاست کی ابجد سیکھنے والے سیاست داں مجھے نظرانداز کررہے ہیں۔ دراصل میری ترقی ہی ریاست کی ترقی کی ضامن بن سکتی ہے۔
آپ کی خدمت گزار
عثمانیہ یونیورسٹی
