مہاراشٹرا ‘ اقتدار کیلئے رسہ کشی

   

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
مہاراشٹرا ‘ اقتدار کیلئے رسہ کشی
مہاراشٹرا اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد سیاسی جوڑ توڑ کا عمل پوری شدت کے ساتھ شروع ہوگیا تھا ۔ ہریانہ میں بی جے پی سادہ اکثریت تک حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی جس کے بعد اسے دشئینت چوٹالہ کی قیادت والی جے جے پی کی تائید حاصل کرتے ہوئے حکومت بنانی پڑی ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی پارٹی کو توقعات کے مطابق کامیابی نہیں مل سکی اور اس کے نتیجہ میں وہاں ایک طرح سے اقتدار کی رسہ کشی کا آغاز ہوچکا ہے ۔ شیوسینا کی نشستیں بھی حالانکہ سابق کی بہ نسبت اس بار کم ہوئی ہیں لیکن بی جے پی کے کمزور موقف کی وجہ سے شیوسینا نے سخت گیر موقف اختیار کرلیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ چیف منسٹر کا عہدہ دونوں جماعتوں میں مساوی معیاد کیلئے بانٹا جانا چاہئے جس کیلئے بی جے پی بظاہر تیار نظر نہیں آتی ۔ بی جے پی ودنوں ریاستوں میں حکومت سازی کے عمل سے علیحدہ علیحدہ نمٹنا چاہتی تھی اور یہی وجہ رہی کہ پہلے ہریانہ پر توجہ دیتے ہوئے وہاں جے جے پی کی تائید سے حکومت بنالی گئی ہے ۔ اب پارٹی مہاراشٹرا پر توجہ دے سکتی ہے جہاں اسے توڑ جوڑ کے زیادہ مواقع دستیاب نہیں ہیں کیونکہ جو جماعتیں ریاست میں ہیں ان میں کوئی بھی ‘ شیوسینا کے سوائے ‘ بی جے پی کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوسکتیں۔ ان میں این سی پی اور کانگریس ہیں جو بی جے پی سے شدید اختلافات اور کٹر موقف کی وجہ سے بی جے پی کو حکومت سازی میں کوئی مدد نہیں کرسکتے ۔ اسی صورتحال نے شیوسینا کو طاقتور موقف عطا کردیا ہے اور شیوسینا مہاراشٹرا میں اب اپنا چیف منسٹر چاہتی ہے ۔ شیوسینا سے ٹھاکرے خاندان کے کسی فرد نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی ہے اور پارٹی اور پارٹی کے صدر ادھو ٹھاکرے چاہتے ہیں کہ کسی طرح آدتیہ ٹھاکرے کو چیف منسٹر کا عہدہ مل جائے ۔ شیوسینا کے حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ جب تک پارٹی کا چیف منسٹر نہیں ہوگا اس وقت تک ریاست میں پارٹی کے عوامی تائید کے حلقے کو وسعت نہیں دی جاسکے گی ۔ جس طرح بی جے پی نے ریاست میں اپنے حلقہ اثر کو وسعت دی ہے اس کا جواب شیوسینا چیف منسٹر سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔
ابھی تک حالانکہ بی جے پی نے اس تعلق سے کوئی لب کشائی نہیں کی ہے ۔ پارٹی کے سامنے اولین ترجیح ہریانہ میں حکومت سازی کا عمل تھا جسے اس نے پورا کرلیا ہے اور اس میں اسے کسی طرح کی رکاوٹ درپیش نہیں آئی ہے ۔ جہاں تک مہاراشٹرا کی بات ہے شیوسینا ہی اپنے طور پر تبصرے کرتی جا رہی ہے لیکن بی جے پی کی مرکزی قیادت ہنوز خاموش ہے ۔ ریاستی چیف منسٹر دیویندر فرنویس نے صرف ایک مرتبہ اشارہ دیا کہ چیف منسٹر کے عہد ہ پر کسی طرح کی مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اس طرح یہ اشارہ تو ملا ہے کہ دونوں جماعتوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور انتخابات میں بی جے پی کی توقعات سے کم کارکردگی نے شیوسینا کو اپنے موقف میں سختی پیدا کرنے میں مدد فراہم کی ہے ۔ شیوسینا چاہتی ہے کہ پانچ سالہ معیاد میںدونوں جماعتوں کے درمیان چیف منسٹر کا عہدہ بانٹا جائے لیکن بی جے پی ایسا نہیں چاہتی ۔ حالانکہ دونوں جماعتوں کی اعلی قیادت میں ابھی اس تعلق سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن شیوسینا کا دعوی ہے کہ انتخابات سے قبل دونوں میں 50-50 فارمولا طئے ہوا تھا اور اب اس پر عمل آوری ہونی چاہئے ۔ ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھتے ہوئے حکومت سازی کے امکان پر بھی کچھ تبصرے ہوئے ہیں لیکن ان میں کسی طرح کی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ این سی پی نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ حکومت سازی میںشیوسینا کی مدد کرنے تیار نہیں ہے کیونکہ عوام نے اسے اپوزیشن میں بیٹھنے کی رائے دی ہے ۔
یہ اقتدار کی رسہ کشی دونوں جماعتوں کے سیاسی مفادات کو ظاہر کرتی ہے ۔ بی جے پی جہاں یہ عہدہ چھوڑنے کو تیار نظر نہیںآتی وہیں شیوسینا بی جے پی کے نسبتا کمزور موقف کو دیکھتے ہوئے موقع پرستی پر اتر آئی ہے ۔ اس سے دونوں جماعتوں کے حقیقی چہرے عوام کے سامنے آتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے اپنے اقتدار یا عہدوں کے لالچ میں یہ جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں اور ہر جماعت چیف منسٹر کا عہدہ چاہتی ہے ۔ عوام کے سامنے مشترکہ رجوع ہوتے ہوئے مقابلہ کرنے والی یہ جماعتیں اب آپس میں ہی متحد نظر نہیں آتیں۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان جماعتوں کے سامنے عوام یا ریاست کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنا اقتدار اور اپنا عہدہ اور اپنے سیاسی مفاد کی زیادہ اہمیت رہ گئی ہے ۔