فرازِ دار ہو یا حلقہ رسن ہو نصیب
رہِ وفا میں کب اہلِ وفا سے بھول ہوئی
مہاراشٹرا میں انتخابات کے دوران سیاسی تبدیلیوںکا سلسلہ چل رہا ہے ۔ جہاںمختلف سیاسی جماعتوںکو ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض باغی قائدین کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں تو کہیںسیاسی جماعتوںمیںا تفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال ان کیلئے مشکل ہوتی جا رہی ہے ۔ ویسے بھی انتخابات کے موسم میںسیاسی جماعتوںاور قائدین میں اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ خاص طور پر ایسی جماعتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نظریاتی اختلاف کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں برسر اقتدار اتحاد مہایوتی کو اختلافات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انتخابات کے موسم میں یہ اختلافات ان کیلئے نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے ہمیشہ ہی کی حکمت عملی کی طرح مذہبی جذبات کو اشتعال دلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جس کسی ریاست میں انتخاب ہو وہاں ایسا کیا جاتا ہے اور جذباتی و اشتعال انگیز نعرے دئے جاتے ہیں اور بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جاتی ہے ۔ اب بھی بی جے پی کی جانب سے ایسا ہی کیا جا رہا ہے ۔ اب بھی جذباتی اور اشتعال انگیز نعر وں کا ہی سہارا لیا جارہا ہے جبکہ قواعد و قوانین کے اعتبار سے انتخابی عمل میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی مذہب کے نام پر ووٹ مانگے جاسکتے ہیں۔ تاہم بی جے پی کی جانب سے لگاتار مذہب کا سہارا لیتے ہوئے ایسا کیا جا رہا ہے اور الیکشن کمیشن اس معاملے میں غفلت سے کام لے رہا ہے ۔ اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کی جانب سے ایک نعرہ دیا گیا تھا ’’ بٹیں گے ۔ تو کٹیں گے ‘‘ ۔ اس نعرہ کے ذریعہ ہندوتوا کا دم بھرنے والے آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کے دوسرے قائدین نے خود ہندو برادری میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حلیف این سی پی ( اجیت پوار ) کے سربراہ ڈپٹی چیف منسٹر اجیت پوار نے اس نعرہ پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ نعرہ سماج کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔ جب بی جے پی کی حلیف جماعتیں خودا س نعرہ سے اطمینان محسوس نہیں کر رہی ہیں تو اس کا عوام پر کیا اثر ہوسکتا ہے یہ سب پر عیاں ہے ۔
اجیت پوار نے اس نعرہ سے اپنے عدم اتفاق کا کھلے عام اظہار کردیا تھا کیونکہ انہیں مہاراشٹراکے سکیولر ووٹرس کی فکر لاحق ہے اور خاص طور پر انتخابات کے موسم میں وہ اس طرح کے نعروں سے اپنا نقصان کرلینے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ آج مہاراشٹرا کے ایک اور ڈپٹی چیف منسٹر و بی جے پی لیڈر دیویندر فرنویس نے اجیت پوار کے اختلاف کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اجیت پوار کو ابھی اس طرح کے نعروں کوسمجھنے اور ان سے اتفاق کرنے کیلئے وقت درکار ہوگا کیونکہ وہ طویل عرصہ سے سکیولر جماعتوں کے ساتھ رہے ہیں۔ اس طرح دیویندر فرنویس نے بھی اجیت پوار سے عدم اتفاق کیا ہے ۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی اور این سی پی میںاختلاف رائے پایا جاتا ہے اور دونوںمحض انتخابات کی وجہ سے اور سیاسی فائدہ کی غرض سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں تاکہ اقتدار ہاتھ سے جانے نہ پائے ۔ یہ اتحاد موقع پرست اتحاد ثابت ہورہا ہے اور یہ بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ کوئی نظریاتی اور مسائل کی بنیاد پر کیا گیا اتحاد نہیں ہے ۔ اس کے ذریعہ عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کسی کا مقصد نہیں ہے بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے ایجنڈہ اور اپنے اپنے نظریات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے اور اپنے اپنے سیاسی فائدہ کی خاطر ہی ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کیلئے مجبور ہیں۔حالانکہ یہ جماعتیں تاحال ایک دوسرے کے ساتھ ہیں لیکن ان کے اختلافات اب ریاست کے عوام پر بھی عیاں ہوگئے ہیں اور وہ بھی اس کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان جماعتوں کا اتحاد ذاتی مفادات پر مبنی ہے اور عوام کی بہتری سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے ۔
جس طرح سے اجیت پوار نے بی جے پی کے نعرہ سے اختلاف کیا ہے اور جس طرح سے دیویندر فرنویس نے اجیت پوار کی رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے اس سے ساری ریاست کے عوام ان کے اختلافات سے واقف ہوچکے ہیں اور ایسے میں انتخابات میں انہیں عوام کی تائید اور ان کے ووٹ ملنا آسان نہیںرہ گیا ہے ۔ ریاست کے عوام کو اپنی سیاسی بصیرت اور فراست سے کام لیتے ہوئے سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو جماعتیں ایک نعرہ پر آپس میں اتفاق نہیں کرتیں وہ عوام کی بہتری اور فلاح کے کام کس طرح سے انجام دیں گی ۔ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے وقت انہیں ساری صورتحال کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔