بلندی کا نشہ ہے بس دوپہر تک
سرِ شام سورج کو ڈھلنا پڑے گا
مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے اندرون تین ماہ ایسا لگتا ہے کہ مہایوتی اتحاد کی دو اہم جماعتوں بی جے پی اور شیوسینا ( شنڈے ) گروپ میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ اختلافات بتدریج کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگے ہیں اور شیوسینا کے حلقوں میں خاص طور پر بے چینی پیدا ہونے لگی ہے ۔ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ شیوسینا اور اس سے تعلق رکھنے والے وزراء ‘ ارکان اسمبلی اور دوسرے قائدین کی اہمیت کو گھٹایا جا رہا ہے جبکہ بی جے پی نے اس طرح کے کسی بھی الزام کی تردید کی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیںجن سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی ریاست میں ایک نئے سیاسی کھیل کا آغاز کرچکی ہے ۔ دیویندر فڑنویس کی حکومت کی جانب سے شیوسینا شنڈے گروپ سے تعلق رکھنے والے 20ارکان اسمبلی کی سکیوریٹی میں کمی کردی گئی تھی ۔ ان میں کئی ارکان اسمبلی ڈپٹی چیف منسٹر ایکناتھ شنڈے سے قربت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیوسینا سے تعلق رکھنے والے وزراء کے محکمہ جات میں وزراء کے علم و اطلاع میں لائے بغیر عہدیداران کی جانب سے اہم اور پالیسی فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ ریاستی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھاریٹی کی تشکیل پر بھی اختلافات ہوئے تھے کیونکہ اس میں چیف منسٹر کے علاوہ ڈپٹی چیف منسٹر اجیت پوار کو شامل کیا گیا تھا اور ایکناتھ شنڈے کو نظرا نداز کردیا گیا تھا ۔ ان کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے پھر شنڈے کو شامل کیا گیا ۔ اس کے علاوہ حکومت پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی کے تحت ڈپٹی چیف منسٹر ایکناتھ شنڈے نے چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے ہوتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر میڈیکل امداد سیل قائم کیا اور اس میں اپنے حامیوں کے تقررات عمل میںلائے ۔ یہ فیصلہ در اصل بی جے پی پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی سمجھا جا رہا ہے جبکہ بی جے پی نے ریاست میں شنڈے گروپ کی سیاسی اہمیت کو گھٹانے کی حکمت عملی پر عمل شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی اجیت پوار کی زیر قیادت این سی پی کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے ۔
اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد جس وقت ریاست میں حکومت سازی کے عمل پر بات چیت کا دور چل رہا تھا اس وقت سے ہی شیوسینا شنڈے گروپ اور بی جے پی میں اختلافات دیکھنے میں آ رہے تھے ۔ شنڈے دوبارہ چیف منسٹر بننا چاہتے تھے تاہم انہیںڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ اس کے بعد بی جے پی نے بتدریج اپنے سیاسی کھیل کا آغاز کردیا اور وہ دھیرے دھیرے ریاستی انتظامیہ اور حکومت پر اپنی گرفت مضبوط بنانے میں مصروف ہے ۔ بی جے پی نے ریاست میںجتنی اسمبلی نشستیں جیتی ہیں ان کے ساتھ اسے صرف اجیت پوار کی تائید بھی حکومت برقرار رکھنے کیلئے کافی ہوگی ۔ ایسے میںبی جے پی ایکناتھ شنڈے کی سیاسی اہمیت کو بتدریج گھٹانے کی کوشش میں مصروف ہوگئی ہے اور سیاسی حلقوں میںیہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ بی جے پی اپنی پرانی سیاسی روش کو اختیار کر رہی ہے ۔ وہ تقریبا ہر ریاست میں پہلے تو حلیفوں کے ساتھ مل کر حکومت میں حصہ داری حاصل کرتی ہے اور پھر از خود حکومت بنانے کے موقف میںآکر حلیفوں کو یکے بعد دیگرے چھوڑتی چلی جاتی ہے ۔ انہیں بتدریج کمزور کیا جاتا ہے ۔ ان پر دوسرے حلیفوں کو مسلط کیا جاتا ہے ۔ یہی طریقہ کار بی جے پی نے بہار میں اختیار کیا تھا جہاں نتیش کمار کو دھیرے دھیرے کمزور کردیا گیا اور ان سے شدید اختلافات رکھنے والے چراغ پاسوان سے اتحاد کرتے ہوئے ان کے سیاسی قد اور ان کی سیاسی اہمیت کو زیادہ کردیا گیا ۔ یہ بی جے پی کی حکمت عملی ہے ۔
مہاراشٹرا میں بی جے پی نے گذشتہ معیاد کی اسمبلی میں ایکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کو اپنی اصل پارٹیوں شیوسینا اور این سی پی سے الگ کیا ۔ پھر ان کی تائید کرتے ہوئے حکومت بنائی گئی ۔ ایکناتھ شنڈے کو چیف منسٹر بنادیا گیا ۔ اجیت پوار بھی ڈپٹی چیف منسٹر بنائے گئے ۔ دیویندر فڑنویس نے بھی ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرکے کانگریس اور این سی پی و شیوسینا اتحاد کو توڑ دیا گیا ۔ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد اب این سی پی و شیوسینا کی طرح حلیف جماعتوں کو کمزور کرنے کے کھیل کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ فی الحال یہ اختلافات بڑھنے لگے ہیں اور یہ کہاں تک پہونچیں گے یہ ابھی سے کہنا قبل از وقت ہوگا ۔