ملک کی بڑی ریاستوں میں سے ایک مہاراشٹرا میں بھی اسمبلی انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ کانگریس ‘ این سی پی ( شرد پوار ) اور شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کے مابین بھی نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے ۔ اس اتحاد کے حوصلے اس لئے بھی بلند ہیں کیونکہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست میں اس اتحاد کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ بی جے پی ‘ این سی پی ( اجیت پوار ) اور شیوسینا ( ایکناتھ شنڈے ) کو لوک سبھا انتخابات میں اپنی کئی نشستوں سے محروم ہونا پڑا تھا ۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات کا وقت آگیا ہے تو لوک سبھا نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں ۔ دونوں ہی اتحاد کی حلیف جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات کا آغاز کرچکی ہیں۔ جہاں تک بی جے پی زیر قیادت اتحاد کی جماعتوں کا سوال ہے تو وہ لوک سبھا انتخابات کی ناقص کارکردگی کے باوجود اسمبلی انتخابات میں اپنے لئے زیادہ نشستوں کے مطالبے کر رہی ہیں۔ بی جے پی مہاراشٹرا میںاقتدار میں حصہ داری نہیں بلکہ اپنا تسلط چاہتی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ اگر اس کے اتحاد کو کامیابی مل جائے تو چیف منسٹر کا عہدہ اسے حاصل ہو۔ اسی لئے بی جے پی نے یہ مطالبہ رکھ دیا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں اسے کم از کم 150 نشستوں پر مقابلہ کرنے کا موقع دیا جائے ۔ این سی پی اجیت پوار کی پارٹی کیلئے اس اتحاد میں 55 نشستوں کی پیشکش کی گئی ہے تاہم اجیت پوار اور ان کے ساتھی قائدین چاہتے ہیںکہ ان کی پارٹی کو 80 نشستیں الاٹ کی جائیں۔ اس صورتحال میں ایکناتھ شنڈے کی قیادت والا شیو سینا گروپ بھی اضافی نشستوں کا مطالبہ کرے گا ۔ کچھ مقامی جماعتیں ہیں اور کچھ آزاد امیدوار بھی اس اتحاد کے ساتھ ہیں۔ ان سب کیلئے نشستوں کا الاٹمنٹ بی جے پی کیلئے ایک مشکل مرحلہ بنتا جا رہا ہے ۔ سبھی جماعتیں اپنے لئے زیادہ نشستوں کیلئے مصر ہیں اور اس مسئلہ پر ابھی تک ان میں کوئی اتفاق رائے نہیںہوسکا ہے ۔ حالانکہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے تاہم جلد کسی قطعی نتیجہ کی امید نہیں کی جاسکتی ۔
بی جے پی کے منصوبوں میں جاریہ معیاد میں کانگریس ‘ این سی پی شرد پوار اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے کو اقتدار سے دور کرنا تھا ۔ بی جے پی کو یہ احساس تھا کہ اجیت پوار اور ایکناتھ شنڈے پر قابو کیا جاسکتا ہے ۔ موقع اور صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے شنڈے کو چیف منسٹر بنادیا گیا اور بعد میں اجیت پوار بھی ڈپٹی چیف منسٹر بنادئے گئے ۔ بی جے پی کیلئے یہ پوری طرح سے قابل قبول فارمولا نہیں تھا ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ اسے ہی ریاست میں چیف منسٹر کا عہدہ حاصل ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اتحاد رکھنے کے باوجود گذشتہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد ادھو ٹھاکرے کو چیف منسٹر کا عہدہ دینے سے انکار کردیا گیا تھا اور اسی وجہ سے اتحاد ٹوٹ بھی گیا تھا ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات اگر اسے کامیابی حاصل ہوجائے تو پھر چیف منسٹر کے عہدہ پر دعویداری زیادہ مشکل نہیں رہے گی اور اس وقت کی تازہ صورتحال میں ایکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کیلئے بھی بی جے پی کے دباؤ کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جائیگا ۔ خود ایکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کو بھی یہ احساس ہے کہ بی جے پی چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے مصر ہوسکتی ہے ۔ اسی لئے وہ بھی اپنے لئے زیادہ نشستوں کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ زیادہ ارکان اسمبلی اگر منتخب ہوجائیں تو پھر بی جے پی کے دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کرنے کی گنجائش موجود رہے ۔ حالانکہ کسی کو بھی یہ یقین نہیں ہے کہ اتحادی جماعتوں کو اسمبلی انتخابات میں عوام کی تائید اور پھر اقتدار حاصل ہو پائے گا ۔
بی جے پی کیلئے جس طرح دوسری ریاستوں میں اپنے قائدین کی ہی مخالفت اور ٹکٹ نہ ملنے پر بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مہاراشٹرا میں بھی اس کے اندیشے ضرور لاحق ہیں۔ اس کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے بی جے پی زیادہ نشستوں کیلئے اصرار کر رہی ہے ۔ ایکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کے اقتدار پر برقراری کے عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے بی جے پی کیلئے موجودہ صورتحال میں سب کیلئے قابل قبول کوئی فارمولا تیار کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ یہ ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے اور بی جے پی اس سے نمٹنے کی اپنے طور پر کوشش کر رہی ہے ۔ یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے اس پر ابھی سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔