اظہارِ درد کیجئے مگر اُن کا اضطراب
دیکھا بھی جاسکے گا دلِ بے قرار سے
مہاراشٹرا ‘ تشکیل حکومت کی سمت پیشرفت
ملک کی ایک بڑی اور اہم ریاست مہاراشٹرا میں انتخابی عمل کو مکمل ہوئے 20 سے زیادہ کا وقت ہوگیا ہے اور اب تک وہاں حکومت قائم نہیں ہوپائی ہے کیونکہ قبل از انتخابات اتحاد شیوسینا اور بی جے پی میں چیف منسٹر کی کرسی کے مسئلہ پر اختلافات شدید ہوگئے تھے اور شیوسینا نے بی جے پی سے اپنا اتحاد ختم کرلیا ہے ۔ اب شیوسینا کا این سی پی اور کانگریس کے ساتھ اتحاد تقریبا طئے ہوتا نظر آرہا ہے اور ان جماعتوں کی مخلوط حکومت بننے کی سمت پیشرفت ہوئی ہے ۔ حالانکہ این سی پی اور شیوسینا اور کانگریس کے درمیان نظریاتی اختلافات شدید ہیں ۔ شیوسینا کٹر ہندوتوا پالیسیوں میں یقین رکھتی ہے تو این سی پی اور کانگریس نے سکیولر اقدار کی ہمیشہ بات کی ہے تاہم اب وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے ان جماعتوں کے مابین ایک مشترکہ اقل ترین پروگرام تیار کیا جارہا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق یہاں ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام کو قطعیت دی جاچکی ہے اور اب اس کی تینوں اہم جماعتوں کے سربراہان کی جانب سے منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹرا کی سیاست میں اپنے اثر کو ثابت کرنے والے شرد پوار نے واضح کیا ہے کہ آئندہ چند ہی دنوں میں مہاراشٹرا میں ایک منتخبہ حکومت قائم ہوجائیگی اور تینوں جماعتوں کے درمیان اس مسئلہ پر مذاکرات میں پیشرفت ہو رہی ہے ۔ شرد پوار کو مہاراشٹرا کا مرد آہن سمجھا جاتا ہے اور وہ حالیہ انتخابات میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مہاراشٹرا کی سیاست آج بھی ان کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی ۔ انتخابات سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ این سی پی اور شیوسینا کا تقریبا صفایا ہوجائیگا اور شیوسینا اور بی جے پی کو دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہوجائے گی تاہم ایسی تمام پیش قیاسیاں غلط ثابت ہوئیں اور کانگریس اور این سی پی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہی درج کیا گیا ہے ۔ اس کے برخلاف شیوسینا ۔ بی جے پی کی نشستوں کی تعداد میں گراوٹ آئی ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں نے اتحاد میں مقابلہ کیا تھا اور دونوں ہی کی نشستیں سابقہ انتخابات کی بہ نسبت کم ہوگئی تھیں۔ یہ ایک طرح سے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ریاست کے عوام کی رائے تھی جو ووٹوں کی شکل میںسامنے آئی۔
اب جبکہ مہاراشٹرا میں ایک نئے اتحاد کا امکان پیدا ہوگیا ہے اورشیوسینا ۔ این سی پی اور کانگریس کی حکومت بننے کے آثار پیدا ہوئے ہیں تو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ شیوسینا کٹر ہندوتوا پالیسیوں کو ترک کرے اور اقلیت دشمنی کی پالیسی سے گریز کیا جائے ۔ اقلیتوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنے کی ذمہ داری کانگریس اور این سی پی پر زیادہ عائد ہوتی ہے ۔ ان دونوں جماعتوں کو چاہے وہ حکومت کا حصہ رہیں یا نہ رہیں لیکن یہ بات یقینی بنانا ہوگا کہ اقلیتوں کے ساتھ مہاراشٹرا میں انصاف ہو ۔ انہیں سماج میں ان کے جائز حقوق دئے جائیں۔ انہیں بھی ترقی کے ثمرات میں حصہ دار بنایا جائے ۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے ۔ تعلیم اور معیشت کے میدان میں انہیں نئے مواقع فراہم کئے جائیں۔ انہیں بھی آگے بڑھنے اور دیگر ابنائے وطن کی طرح ترقی کرنے کی کوششوں میں مدد فراہم کی جائے ۔ اب جبکہ این سی پی اور کانگریس کو اقتدار میںحصہ داری یا اسکی تائید کرنے کا موقع ہاتھ آ رہا ہے تو اقلیتوں کے تعلق سے ان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس ذمہ داری کو ان جماعتوں کو بخوبی نبھانا چاہئے ۔ جب تک اقلیتوں کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں ہوگا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا سلسلہ ختم نہیں کیا جائیگا اس وقت تک خود مہاراشٹرا کی ترقی بھی ممکن نہیں ہو پائے گی ۔
کانگریس اور این سی پی پر ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ فرقہ پرستی کی روایات کو ختم کرنے اور سکیولر اقدار کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کریں اور اس میںہمیشہ آگے رہیں۔ اس کے علاوہ ان تینوں جماعتوں پر یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست میں استحکام کو یقینی بنائیں۔ اب جبکہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے میں کامیاب مل رہی ہے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ایک مستحکم حکومت فراہم کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ استحکام ہی کے ذریعہ ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور عوام پر بوجھ عائد کرنے کی بجائے عوام کو راحت پہونچانے ‘ سماج کے تمام طبقات اور خاص طور پر اقلیتوں و دلتوں سے انصاف کرنے اور انہیں سماج میں ایک با عزت مقام دینے کیلئے ان تمام جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے اور کسی طرح کے امتیاز اور جانبداری کے سلوک کو بھی برداشت نہیں کیا جانا چاہئے ۔