مہاراشٹرا ‘ ماقبل انتخابات کشیدگی

   

کیوں راکھ کے ہے ڈھیر سے اٹھتا ہوا اب تک دھواں
کیا کیا چمن میں ہے جلا یہ آشیاں سے پوچھئے
ملک کی تجارتی راج دھانی والی ریاست مہاراشٹرا میں حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کشیدگی انتخابات کے پیش نظر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ ہر مسئلہ کو انتخابات کے پیش نظر اچھالا جا رہا ہے اور اس پر سیاست کرنے سے کوئی بھی گر یز نہیں کر رہا ہے ۔ مہاراشٹرا میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ خاص طور پر ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جہاں بی جے پی ۔ شیوسینا ( شنڈے ) اور این سی پی ( اجیت پوار ) کی حکومت اپنی گرفت کو مضبوط بنائے رکھنا چاہتی ہے وہیں شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کی جانب سے اپنے کھوئے ہوئے سیاسی وقار کو بحال کرنے پر توجہ کرتے ہوئے جدوجہد شروع کی گئی ہے ۔ شیوسینا ادھو ٹھاکرے کی جانب سے اپنے عزیز راج ٹھاکرے کی مہاراشٹرا نو نرمان سینا کے ساتھ اتحاد کی پہل بھی کردی گئی ہے اور اس سلسلہ میں دونوں جماعتوں کے ایک دوسرے سے قریب آنے کے اشارے بھی ملنے لگے ہیں۔ بی جے پی زیر قیادت اتحادی حکومت کو اس اتحاد سے بھی پریشانی لاحق ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں کچھ ایسے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ سماج میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے تاہم سیاسی جماعتیں اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے ساری ریاست میں لاؤڈ اسپیکرس کے استعمال پر امتناع عائد کردیا گیا ہے ۔ اس کا ااصل مقصد و منشاء اذان کو نشانہ بنانا ہے جو لاؤڈ اسپیکرس پر دی جاتی ہے ۔ تاہم اب دوسرے مذاہب کیلئے بھی لاؤڈ اسپیکرس پر پابندی عائد رہے گی ۔ حکومت اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ممبئی یا مہاراشٹرا میں رہنا ہے تو مراٹھی بولنا ہی پڑے گا ۔ حکومت نے اس پر بھی واضح اشارے دیدئے ہیں۔ اس کا مقصد بھی سیاست کو چمکان ہی ہے اور اس کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ گذشتہ ہفتوں سے ریاست میں مراٹھی اور ہندی زبانوں کا مسئلہ موضوع بحث رہا تھا اور عوام بھی اس مسئلہ میں رائے ظاہر کرنے لگے تھے ۔
اسکولس میں سہ لسانی فارمولا اختیار کرنے اور ہندی پڑھانے کے تعلق سے ریاستی حکومت نے فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف شیوسینا ادھو ٹھاکرے اور ایم این ایس کی جانب سے احتجاج شروع کردیا گیا تھا ۔ فرنویس حکومت پر الزام عائد کے گیا تھا کہ وہ مراٹھا عوام پر ہندی مسلط کرنا چاہتی ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے اس کے خلاف عوامی احتجاج کے پروگرامس کا اعلان کیا گیا تھا ۔ حکومت نے اس احتجاج کے امکانی اثرات کا قبل از وقت اندازہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے کو معطل کردیا ہے ۔اب سہ لسانی فارمولا پر عمل کو روک دیا گیا ہے اور اس مسئلہ کا جائزہ لینے کیلئے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے ک فیصلہ کیا گیا ہے ۔ گذشتہ دنوں ہندی بولنے کے مسئلہ پر ایک دوکاندار کو مار پیٹ کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ یہ مسئلہ بھی ساری ریاست میں ہندی ۔ مراٹھی کے ٹکراؤ کا سبب بن گیا ۔ اس مسئلہ نے بھی عوام کی توجہ حاصل کرلی تھی ۔ اس پر حکومت مہارشٹرا نے واضح کیا ہے کہ مہاراشٹرا میں رہنا ہے تو مراٹھی بولنا ہوگا ۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کا ریاست کے عوام یا ریاست کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان مسائل کو محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے ہوا دی جا رہی ہے ۔ سیاسی جماعتیں انتخابی فائدہ کو نظر میں رکھتے ہوئے ان مسائل میں عوام کو الجھا رہی ہیں ۔بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے اس حکمت عملی کو اختیار کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد اپوزیشن کی جانب سے شروع کردی مہم کے اثرات کو زائل کرنا بھی ہے ۔
اب جبکہ مہاراشٹرا میں بلدیاتی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے تو اپوزیشن جماعتیں ہوں یا پھر برسر اقتدار اتحاد ہو سبھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے ایسے مسائل کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کے نتیجہ میں ماحول پر منفی اثرات ہو رہے ہیں اور کشیدگی پھیل رہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو تمام نزاعی مسائل پر حساس اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ سیاسی فائدہ کیلئے ماحول کو کشیدہ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ جہاں علاقائی زبان کی اہمیت کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے وہیں سماجی ہم آہنگی کی بھی اہمیت ہے ۔ حکومت ہو یا اپوزیشن جماعتیں ہوں سبھی کو اس معاملے میں ذمہ درانہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔