عجیب شخص ہے، ہمدردیاں لٹاتا ہے
پرائی آگ کے دریا میں کود جاتا ہے
ملک کی مختلف ریاستوں کے کچھ اسمبلی حلقہ جات کیلئے ضمنی انتخابات کے نتائج کا کل اعلان ہوگیا ہے ۔ بی جے پی نے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ ٹی آر ایس ‘ شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) اور آر جے ڈی کو ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ حالانکہ ان نشستوں کے نتائج حکومتوں یا سیاسی منظر نامہ پر کوئی اثر ڈالنے والے نہیں ہیں لیکن ان سے سیاسی حکمت عملی پر اثر ضرور ہونے والا ہے اور اس سے سیاسی جماعتوں کے حوصلے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ جن جماعتوں کو کامیابی ملی ہے ان کے حوصلے ضرور بلند ہونگے اور جنہیں شکست ہوئی ہے انہیں اپنی شکست کی وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت ان نتائج سے ظاہر ہوتی ہے ۔ تلنگانہ میں بی جے پی نے ساری طاقت جھونکتے ہوئے منوگوڑ حلقہ سے مقابلہ کیا تھا تاہم اسے وہاں برسر اقتدار ٹی آر ایس کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے ۔ اس حلقہ کے نتیجہ کا بھی تلنگانہ کی سیاست پر اثر ہونے والا ہے کیونکہ بی جے پی نے یہاں کامیابی کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی اور ٹی آر ایس نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ اس حلقہ میں دولت کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہوئے انتخابات لڑے گئے تھے ۔ اسی طرح مہاراشٹرا کے اندھیری حلقہ سے بھی ضمنی انتخاب ہوا اور اس میں شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کو کامیابی ملی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی نے اس حلقہ سے اپنے امیدوار سے دستبرداری اختیار کرلی تھی لیکن شیوسینا ادھو ٹھاکرے کیلئے یہ کامیابی اس لئے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں ادھو ٹھاکرے کے کارکنوں اور کیڈر کے حوصلے بلند کرنے ضروری تھی ۔ ریاست میں ایکناتھ شنڈے کی بغاوت ‘ انہیں بی جے پی کی تائید اور شیوسینا کی اقتدار سے محرومی کے بعد ادھو ٹھاکرے گروپ کے کارکنوں کے حوصلے پست ہونے لگے تھے اور ان کے عزائم پر اس کا اثر ہونے لگا تھا ۔ تاہم اندھیری حلقہ سے کامیابی کے نتیجہ میں ادھو ٹھاکرے گروپ کو قدرے راحت مل سکتی ہے اور کارکنوں کے حوصلوں کو بلند کرنے میں یہ کامیابی اہم رول ادا کرسکتی ہے ۔ یہ کامیابی اس لئے بھی ضروری تھی کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات بھی آئندہ مہینوں میں ہونے والے ہیں۔
برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن ہندوستان کی سب سے دولتمند کارپوریشن ہے اور اس پر گذشتہ ڈھائی دہوں سے شیوسینا کا قبضہ رہا ہے ۔ شیوسینا کیلئے بی ایم سی کا اقتدار انتہائی اہم اور وقار کا مسئلہ ہے ۔ ایسے میں اندھیری حلقہ سے شیوسینا امیدوار کی کامیابی ٹی ار ایس کارکنوں کے حوصلوں کو بلند کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ شیوسینا سے بغاوت کرکے پارٹی میں پھوٹ ڈالنے والے ایکناتھ شنڈے گروپ نے بھی اس حلقہ سے مقابلہ میں حصہ نہیں لیا تھا ۔ اس سے ان کی احتیاط پسندی کا اظہار ہوتا ہے ۔ بی جے پی نے حالانکہ اس حلقہ سے اپنے امیدوار کا اعلان کردیا تھا تاہم بعد میں اس سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ۔ شیوسینا کا رد عمل حسب توقع یہی تھا کہ بی جے پی نے اپنی شکست کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے اپنے امیدوار سے دستبرداری اختیار کی تھی ۔ بی جے پی کا عذر یہی تھا کہ ایک متوفی رکن اسمبلی کی شریک حیات سے ہمدردی کیلئے اس نے مقابلہ سے دستبرداری اختیار کی ہے ۔ تاہم اس ساری صورتحال میں یہ طئے تھا کہ شیوسینا کو یہاں سے کامیابی ملے گی اور یہ کامیابی شیوسینا ادھو گروپ میں نئی جان ڈالنے اور کارکنوں اور قائدین کے حوصلوں کو بلند کرنے میں اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے اور خاص طور پر اس پس منظر میں یہ کامیابی اہم ہوجا تی ہے جب بی ایم سی کے انتخابات ہونگے ۔ شیوسینا کی ساری جدوجہد یہی ہوگی کہ بی ایم سی پر اپنے تسلط اور اقتدار کو برقرار رکھے اور اس میں اندھیری حلقہ سے کامیابی اہم رول ادا کرسکتی ہی ۔
انتخابی سیاست میں نفسیاتی برتری کو بھی بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے اور عوام کے رجحان کا تعین کرنے میں یہ نفسیاتی برتری کچھ حد تک ہی صحیح اہم رول نبھا سکتی ہے ۔ا ندھیری ضمنی انتخاب میں شیوسینا ادھو ٹھاکرے گروپ کی کامیابی سے ادھو ٹھاکرے اور ان کے ساتھیوں کو نفسیاتی برتری حاصل ہوئی ہے اور اس کے تحت جب بی ایم سی کے انتخابات ہونگے تو اس گروپ کی مہم پر اس نتیجہ کے اثرات ضرور دکھائی دینگے ۔ کم از کم عوام میں ایک مستحکم موقف پیش کرنے میں یہ گروپ کامیاب ہوسکتا ہے ۔ بی ایم سی پر شیوسینا اپنا قبضہ اور تسلط برقرار رکھ پاتی ہے یا نہیں اس پر بھی اس حلقہ کے نتیجہ کا اثر دکھائی دے سکتا ہے ۔