کوئی کچھ پوچھے تو پہلے مسکرادیتے ہیں وہ
باقی باتیں بعد میں ’ووٹ‘ پہلے لے لیتے ہیں وہ
ملک میں ایک بار پھر انتخابی ماحول گرمانے والا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا کیلئے انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے معلنہ شیڈول کے مطابق جھارکھنڈ میں دو مراحل میں 13 اور 20 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ مہاراشٹرا میں ایک ہی مرحلے میں 20 نومبر کو رائے دہی ہوگی۔ نتائج کا اعلان 23 نومبر کو کیا جائیگا ۔ 13نومبر کو کیرالا میں وائیناڈ لوک سبھا حلقہ کیلئے بھی ضمنی انتخاب ہوگا اور یہ انتہائی اہمیت کا حامل الیکشن ہوگا کیونکہ وائیناڈ سے کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا مقابلہ کرنے والی ہیں۔ حالانکہ پرینکا گاندھی 1999 سے سیاسی عمل کا حصہ رہی ہیں اور اپنی والدہ سونیا گاندھی اور پھر بھائی راہول گاندھی کے انتخابی حلقوں میں الیکشن کی کمان سنبھالا کرتی تھیں۔ وہ 2019 سے سرگرم سیاست کا بھی حصہ بن گئی ہیں۔ انہیںاترپردیش امور کی ذمہ داری دیتے ہوئے کانگریس جنرل سکریٹری بنادیاگیا تھا ۔ وہ اب کانگریس کی سیاسی مشنری کا لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ انتخابات کے دوران انتخابی مہم کی کمان بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ راہول گاندھی کے ساتھ پرینکا گاندھی انتخابی مہم کی اسٹار بن گئی ہیں۔ اب جب 13 نومبر کو وائیناڈ میں ووٹ ڈالے جائیں گے تو پہلی مرتبہ پرینکا گاندھی مقابلہ میں نظر آسکتی ہیں۔ تاہم جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا کیلئے بھی شیڈول جاری ہوگیا ہے اور یہ دونوں ریاستیں بھی سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ مہاراشٹرا ملک کی بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے اور ممبئی ملک کا معاشی و تجارتی دارالحکومت کہا جاتا ہے ۔ یہاں جس پارٹی یا اتحاد کو اقتدار حاصل ہوگا اس کیلئے دوسری ریاستوں پر اثر انداز ہونے کے زیادہ مواقع دستیاب رہیں گے ۔ اسی طرح جھارکھنڈ کے انتخابات کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کیونکہ پڑوسی ریاست بہار میں آئندہ سال انتخابات ہونے والے ہیں۔ جھارکھنڈ میں جس کسی اتحاد کو اقتدار ملتا ہے اسے بہار کے اسمبلی انتخابات میں قدرے نفسیاتی برتری حاصل ہوسکتی ہے اور رائے دہندوں کے رجحان کو مستحکم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔
ویسے تو امید کی جا رہی تھی کہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا کے انتخابات کا اعلان جموںو کشمیر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہوجائیگا تاہم الیکشن کمیشن نے اس کو ملتوی رکھا تھا ۔ اس کی وجوہات کا تو پتہ نہیں ہے تاہم اپوزیشن جماعتوں کو اس بارے میں شکوک و شبہات تھے اور برسرا قتدار جماعت یا اتحاد کو سہولت فراہم کرنے کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ ان الزامات سے قطع نظر اب جبکہ شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے تو پھر سیاسی سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہونا لازمی ہے ۔ ویسے تو دونوں ہی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں اپنے طور پر انتخابی تیاریوں کا آغاز کرچکی تھیں تاہم یہ تیاریاں اپنے طور پر داخلی سطح تک محدود تھیں۔ اب انتخابی عمل اور سیاسی سرگرمیاں مزید تیز ہوجائیں گی اور سیاسی قائدین کے حربے اور ہتھکنڈے بھی بڑھ جائیں گے ۔ بی جے پی مہاراشٹرا میں ایکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کے ساتھ اقتدار برقرار رکھنے کی جدوجہد کرے گی جبکہ کانگریس پارٹی ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کے ساتھ اقتدار پر واپسی کیلئے کوشش کرے گی ۔ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم اور کانگریس و آر جے ڈی اقتدار بچانے کی جدوجہد کریں گے تو بی جے پی اور اس کی مقامی حلیف جماعتیں اقتدار چھیننے کی جدوجہد کریں گی ۔ ابھی یہ تو دعوی نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ریاستوں میں عوام کس کو اقتدار کی کرسی پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ دونوں ہی اتحادوں کی جانب سے عوام کی تائید حاصل کرنے ہر ممکن جدوجہد کی جائے گی ۔
یہ طئے شدہ امر ہے کہ مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کیلئے بھی انتخابی مہم انتہائی شدت کے ساتھ چلائی جائے گی ۔ رائے دہندوں کو راغب کرنے اور رجھانے کیلئے کوئی بھی کسر باقی نہیںر کھی جائے گی ۔ چونکہ ابھی تو صرف انتخابی شیڈول کا اعلان ہوا ہے ایسے میں سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہوگی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ رائے دہندوں کا جہاں تک سوال ہے تو انہیں اپنی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کا ثبوت دینا ہوگا اور جذباتیت یا اشتعال انگیزی کا شکار ہوئے بغیر اپنے اور اپنی ریاستوں کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے اور مسائل پر توجہ رکھتے ہوئے امیدواروں یا جماعتوںکا انتخاب کیا جانا چاہئے ۔