منزل شوق میں ہوتی ہی نہیں تنہائی
میرا سایہ میرا ہمراہِ سفر رہتا ہے
مہاراشٹرا میں انتخابات کے شیڈول کی اجرائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ جہاں بی جے پی کی جانب سے اپنے امیدواروں کی ایک فہرست جاری کردی گئی ہے وہیںاس کی ایک حلیف جماعت این سی پی ( اجیت پوار ) نے بھی کچھ امیدواروں کا اعلان کردیا ہے ۔ اسی طرح کانگریس زیر قیادت اتحاد ( مہا وکھاس اگھاڑی ) میں بھی نشستوں کی تقسیم پر مفاہمت ہوچکی ہے ۔ بی جے پی اتحاد کیلئے جہاں اقتدار کو بچانے کی فکر لاحق ہے وہیں کانگریس زیر قیادت ایم وی اے کو اقتدار پر واپسی کی جدوجہد کا سامنا ہے ۔ ایسے میں اتحاد کی تین بڑی جماعتوں میں مساوی بنیادوں پر نشستوں کی تقسیم ایک مثبت قدم سمجھی جا رہی ہے ۔ اب تک جن نشستوں پر مفاہمت ہوچکی ہے اور جس کا تینوں ہی جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ طور پر اعلان کیا ہے ان کے مطابق کانگریس 85 شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) 85 اور این سی پی ( شرد پوار ) 85 نشستوں پر مقابلہ کرنے پر متفق ہوچکے ہیں۔ کچھ نشستیںدوسری حلیف اور چھوٹی جماعتوں کیلئے ابھی رکھی گئی ہیں ان میںسماجوادی پارٹی بھی شامل ہے اور کچھ ریاستی جماعتیں ہیں جن کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے ۔ ابھی اس معاملہ کو قطعیت دی جانی باقی ہے ۔ تاہم جہاں تک تینوں بڑی جماعتوں کا سوال ہے تو سبھی نے ایک تعداد پر اتفاق کرلیا ہے اور تینوں ہی جماعتیں مساوی تعداد میں نشستوں پر مقابلہ کیلئے متفق ہوچکی ہیں۔ کسی بھی ریاست میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ نشستوں کی تقسیم پر لمحہ آخر تک ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب کا عمل بھی التواء میں رکھا جاتا ہے ۔ تاہم مہاراشٹرا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تینوں ہی جماعتوں نے تعداد پر اتفاق کرلیا ہے ۔ حالانکہ یہ اتفاق اور پہلے بھی کیا جاسکتا تھا تاہم اب بھی زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے ۔ اب ایک حکمت عملی کے تحت انتخابی مہم کو قطعیت دی جانی باقی ہے ۔ ان تمام جماعتوں کو ایک مشترکہ حکمت عملی بناتے ہوئے انتخاب مہم کے منصوبوںکو قطعیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے سامنے ایک مشترکہ اور متحدہ موقف پیش کیا جاسکے ۔
تینوں ہی جماعتوں کیلئے ایک اور پہلو اہمیت کا حامل ہے کہ کوئی بھی ریاستی قائد ہو یا ضلعی قائد ہو کسی کو بھی مشترکہ مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی اظہار خیال کرنا چاہئے ۔ ایک دوسرے کی حلیف جماعتوں کے تعلق سے لب کشائی کرتے ہوئے انتخابی عمل کی اہمیت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے ریمارکس اور بیان بازیوں سے گریز کرنا چاہئے جن کے نتیجہ میں اتحادی جماعتوں میں اختلاف کی عکاسی ہو۔ اتفاق کو فروغ دیتے ہوئے ایسے مسائل پر عوام کے سامنے اظہار خیال کرنا چاہئے جن کے تعلق سے عوام فکرمند ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل پر کوئی جامع اور موثر منصوبے تیار کئے جائیں۔ انتخابی مہم کے دوران عوام کے جن مسائل کو اٹھایا جانا ہے ان کی نشاندہی کرتے ہوئے تینوں ہی جماعتوں کے قائدین کو اس تعلق سے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے ۔ تینوں جماعتیں پہلے بھی مشترکہ طور پر اقتدار میں حصہ دار رہی ہیں اور مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے مصنوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے جن کی عوام کو ضرورت ہے ۔ جو عوام کی نبض کے مطابق ہوں۔ عوامی مسائل کی یکسوئی اور انہیں راحت پہونچانے پر مبنی ہوں ۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنا چاہئے ۔ فرضی پروپگنڈہ کرنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ مسائل کی بنیاد پر مہم چلانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اختلافی اور نزاعی مسائل میں الجھنے کی بجائے عوام کو درپیش بنیادی مسائل پر توجہ کئے جانے کی ضرورت ہے ۔
سوشیل میڈیا کا استعمال بھی اس اتحاد کیلئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس سوشیل میڈیا کی ایک بڑی فوج موجود ہے جو فرضی پروپگنڈہ کرنے میںمہارت رکھتی ہے ۔ اس کا جواب بھی موثر ڈھنگ سے دینے کی ضرورت ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران ہر جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے ووٹ بینک کا تحفظ کرے اور اتحاد کے حق میں اس کی منتقلی کو یقینی بنائے ۔ آپسی تال میل جتنا مستحکم ہوگا اتنا ہی رائے دہی پر اثر دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔ نشستوں کی تعداد پر اتفاق کرتے ہوئے جو پیشرفت کی گئی ہے دیگر امور میں بھی اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ نتائج توقعات کے مطابق آ سکیں۔