یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا
ریاست ہریانہ اور جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا عمل پورا ہوچکا ہے ۔ آج ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نتائج کا اعلان کردیا جائیگا ۔ نتائج کے مطابق آئندہ حکومتوں کی تشکیل کے بعد سارا انتخابی عمل تکمیل کو پہونچ جائے گا ۔ دونوں ریاست کے بعد اب جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں انتخابی عمل کی تیاریاں شروع ہوجائیں گی ۔ ویسے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنے طور پر داخلی تیاریوں کا سلسلہ پہلے ہی سے شروع کردیا گیا ہے اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے طور پر سرگرم ہوچکی ہیں تاہم باضابطہ انتخابی شیڈول کی اجرائی عمل میں نہیں آئی ہے اور نہ ہی ریاست میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوا ہے ۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کی تیاریوں کا سوال ہے تو بی جے پی کیلئے مہاراشٹرا کی صورتحال اور انتخابی منظرنامہ بھی مشکل حالات کا ہی اشارہ دے رہا ہے ۔ بی جے پی کیلئے مہاراشٹرا میں بھی وہی صورتحال پیش آسکتی ہے جو صورتحال اسے ہریانہ میں دکھائی دے رہی ہے ۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ مہاراشٹرا میں بی جے پی کیلئے ہریانہ سے بھی زیادہ مشکل حالات ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی نے ہریانہ میں2014 اور 2019 میں تمام دس لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور دو مرتبہ کے انتخابات میں اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل کی تھی ۔ تاہم 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کیلئے مشکلات کا آغاز ہوگیا تھا جب اسے لوک سبھا کی 5 نشستوں پر ہی کامیابی ملی تھی اور پانچ کانگریس کے حصے میں آگئی تھیں ۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ہی کانگریس کے کیڈر میں جوش و خروش پیدا کردیا تھا ۔ کانگریس نے کامیاب حکمت عملی تیار کی تھی ۔ پارٹی نے عوام کی نبض اور موڈ کو سمجھتے ہوئے اپنے منصوبے تیار کئے تھے اور ان ہی کے مطابق انتخابی مہم چلائی گئی تھی ۔ یہی صورتحال مہاراشٹرا میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔ 2019 میں مہاراشٹرا میں 48 کے منجملہ اکثریتی نشستوں پر بی جے پی اور اس کی حلیفوں کو کامیابی ملی تھی تاہم 2024 میں بی جے پی ‘ شیوسینا ( شنڈے ) اور این سی پی ( اجیت پوار ) کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ کانگریس ‘ شیوسینا ( ادھو ) اور این سی پی ( شرد پوار ) نے 30 نشستیںجیتی ہیں۔
لوک سبھا کے نتائج کے بعد سے ہی کانگریس ‘ شیوسینا ( ادھو ) اور این سی پی ( شرد پوار ) کیمپ کے حوصلے بلند ہیں اور پارٹی کارکنوں اور اسی طرح کا جوش و خروش دکھائی دے رہا ہے جس طرح کا ہریانہ میں دیکھا گیا تھا ۔ تین جماعتوں کے ووٹرس اگر ایک رائے ہوکر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں تو بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات سے بھی زیادہ کراری شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ لوک سبھا نتائج کو اس حقیقت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ قومی مسائل پرا ور وزیراعظم نریندرمودی کے چہرے پر لڑے گئے تھے ۔ ہر ووٹ مودی کو جانے والا تھا اس کے باوجود ہریانہ میں بھی عوام نے کانگریس کو برابر کی حصہ داری تھی اور مہاراشٹرا میں مودی سے زیادہ مودی مخالفین کو ووٹ دیتے ہوئے نشستیں دلائی گئی تھیں۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات ہونگے تو یہ ریاستی مسائل پر اور ریاستی قیادت کے چہرے پر ہونگے ۔ مودی کے چہرے پر ووٹ نہیں ہونگے ۔ ایسے میں یہ اندیشے بی جے پی کیلئے ظاہر کئے جا رہے ہیںکہ اس کے ووٹ شئیر میں لوک سبھا انتخابات سے بھی زیادہ کمی ہوگی اور اس کا فائدہ کانگریس ‘ شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) اور این سی پی ( شرد پوار ) کو ہوسکتا ہے ۔ اس حقیقت کو ان تینوں جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں نے بھی محسوس کرلیا ہے اور وہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ انتخابی عمل کا حصہ بنیں گے اور رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے پارٹیوں کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے ۔ یہی کچھ نتائج پر اثرا نداز ہوسکتا ہے ۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو وہ انتہائی پیچیدہ صورتحال کا شکار ہوگئی ہے ۔ وہ اپنے طورپر وزارت اعلی امیدوار کا اعلان نہیں کرسکتی ۔ اگر بی جے پی ایسا اعلان کردے تو پھر شنڈے گروپ کے کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوسکتی ہے اور ان کا جوش و جذبہ کم ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح اجیت پوار بھی چیف منسٹر بننے کے خواہاں ہیں ۔ وہ اپنے ووٹ منتقل کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ بی جے پی نے اگر اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا تو پھر وہ شنڈے کے نام پر ووٹ حاصل نہیںکر پائے گی ۔ یہ صورتحال بی جے پی کیلئے نہ اگلتے ہی بنے اور نہ نگلتے ہی بنے والی ہوگئی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اس سے کس طرح نمٹ پاتی ہے ۔