آوازِ باز گشت بھی مشکل سے آئے گی
غربت کو شرمسارنہ کر ہم نوا نہ مانگ
مہاراشٹرا ‘ کرپشن کے الزامات
ہندوستان میں ویسے تو اکثر و بیشتر کرپشن کے الزامات کسی نہ کسی پر عائد ہوتے رہتے ہیں۔ کسی وزیر پر ہو یا کسی دوسرے سینئر لیڈر پر ہو یا پھر اعلی عہدیداروں پر ہو ۔ یہاں کرپشن ایک روایت بن گئی ہے اور اس کے خاتمہ کیلئے وقتی طور پر کبھی کوئی تحریک شروع ہوتی ہے اور پھر اچانک ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ پتہ نہیں ہوتا کہ آخر تحریک شروع کس لئے کی گئی تھی اور ختم کیوں کردی گئی ہے ۔ اب مہاراشٹرا میں ایک سینئر آئی پی ایس عہدیدار نے وزیر داخلہ پر ہی کرپشن کا الزام عائد کردیا ہے ۔ یہ شائد پہلی مرتبہ ہے کہ کسی برسر خدمت آئی پی ایس عہدیدار نے کسی برسر خدمت وزیر داخلہ پر راست کرپشن کا الزام عائد کیا ہو۔ ممبئی پولیس کمشنر کے عہدہ سے ہٹائے گئے پرم بیر سنگھ نے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ پر راست کرپشن کا الزام عائد کیا ہے اور کہا کہ انہوں نے ماہانہ 100 کروڑ روپئے وصول کرنے کی پولیس کے بعض مخصوص عہدیداروں کو ہدایت دی تھی ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس وصولی کیلئے خود وزیر داخلہ نے ممبئی کی ریسٹورینٹس ‘ پبس اور حقہ پارلرس کی نشاندہی بھی کی تھی ۔ یہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور ان کی جامع تحقیقات کروانے کی ضرورت ہے ۔ یہ الزامات اس لئے بھی زیادہ سنگین کہے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ ایک سابق کمشنر پولیس نے عائد کئے ہیں اور برسر خدمت وزیر داخلہ پر عائد کئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کچھ وقت کی الٹ پھیر بھی ہوکیونکہ کمشنر پولیس کے عہدہ سے ہٹائے جانے کے بعد پرم بیر سنگھ یہ الزامات عائد کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے وقت میں عہدہ پر رہتے ہوئے ان الزامات کو اعلی حکام اور حکومت کے ذمہ داروں تک پہونچانے کی کوشش بھی کی ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کی جامع تحقیقات کروائی جائیں ۔ ان الزامات میں کتنی سچائی ہے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ آیا یہ محض عہدہ سے ہٹائے جانے پر بھڑاس تو نہیں نکالی جا رہی ہے ۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔ یہ الزامات اور سارا معاملہ مہاراشٹرا حکومت کی ساکھ پر انثر انداز ہوسکتا ہے اور ساکھ متاثر ہوسکتی ہے ۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے فوری مطالبہ شروع کردیا گیا ہے کہ وزیر داخلہ کو استعفی دینا چاہئے اور اگر وہ ایسا نہیںکرتے ہیں تو چیف منسٹر کو انہیں برطرف کرنا چاہئے ۔ الزامات کی نوعیت اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ وزیر داخلہ کو اب اس عہدہ پر برقرار نہیں رکھا جاسکتا ۔ اگر وہ قصور وار ہیں تو وہ اپنے عہدہ کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اور چونکہ وہ خود پولیس کے ذمہ دار ہیں اس لئے تحقیقات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ بے قصور ہیں تب بھی ان کو اخلاقی طور پر تحقیقات کی تکمیل تک اپنے عہدہ اور وزارت سے علیحدگی اختیار کرلینے کی ضرورت ہے ۔ مہاراشٹرا وکاس اگھاڑی کی حکومت کیلئے بھی یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وزیر داخلہ کو ان کے عہدہ سے ہٹادیا جائے ۔ انہیں وزارت سے بیدخل کردیا جائے تاکہ تحقیقات پر کوئی سوال اٹھنے نہ پائے اور غیر جانبدارانہ طور پر تحقیقات کو مکمل کیا جاسکے ۔ اگر انیل دیشمکھ کو اس عہدہ پر برقرار رکھا جاتا ہے تو فطری طور پر تحقیقات کے غیر جانبدار ہونے پر سوال پیدا ہوگا ۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سارا معاملہ صنعتکار مکیش امبانی کی سکیوریٹی میں ہوئی کوتاہی کی تحقیقات کے سلسلہ میں سامنے آیا ہے ۔ اس اعتبار سے بھی انیل دیشمکھ کو اس معاملہ سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں ہی معاملات سنگین نوعیت کے ہیں اور انہیں کے مطابق تحقیقات کو بھی پوری سنجیدگی اور غیر جانبداری سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انیل دیشمکھ کو وزارت سے علیحدہ کردیا جائے ۔
اس حقیقت سے انکار کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ ملک میں عوامی زندگی میں کرپشن نے انتہائی حدوں کو چھو لیا ہے ۔ نچلے عہدوں سے لے کر اعلی ترین عہدوں تک کرپشن نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ قانون کی رکھوالی کے نام پر قانون سے کھلواڑ ایک عام بات ہوگئی ہے اور غیر محسوب اثاثہ جات اور بے دریغ دولت جمع کرنا ہر ایک کا مشغلہ اور شوق ہوگیا ہے ۔ اس صورتحال پر بھی حکومت مہاراشٹرا کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس تعلق سے جامع منصوبہ اور حکمت عملی بناتے ہوئے حکومت کی ساکھ کو متاثر ہونے سے بچانے اور عوامی زندگی سے کرپشن کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف ایک معاملہ کو کسی طرح برفدان کی نذر کردینا کرپشن کے خلاف جدوجہد میں معاون نہیں ہوسکتا۔
