دراز ہے شب فرقت کا سلسلہ شاید
ہمیشہ رات ہی آتی رہی ہے رات کے بعد
اترپردیش کے پریاگ راج میں مہا کمبھ میلہ چل رہا ہے ۔ یہ میلہ 26 فبروری تک جاری رہنے والا ہے اور اس مہا کمبھ میں کروڑوں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ عوامی اجتماع کے مقام پر حکومتوں کی جانب سے انتہائی موثر اور جامع انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خاص طور پر جہاں ہجوم ہوتا ہے وہاں کسی بھی حادثہ کے اندیشے لاحق رہتے ہیں۔ ایسے میں انتظامیہ کو جامع اور موثر انتظامات کرنے ہوتے ہیں اور یو پی حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے مہا کمبھ کے انتظامات کی کافی تشہیر بھی کی گئی تھی اور یہ دعوی کیا گیا تھا کہ تمام نقائص سے پاک انتظامات کئے گئے ہیں۔ تاہم 29 جنوری کو مہا کمبھ میں اشنان کے مقام پر بھگدڑ کا حادثہ پیش آیا ۔ اس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 افراد کی ہلاکت اوردرجنوں کے زخمی ہونے کی توثیق کی گئی ہے ۔ تاہم مختلف گوشوں سے یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ اس حادثہ میں کئی جانیں تلف ہوئی ہیں اور حکومت اور گودی میڈیا کی جانب سے اعداد و شمار کو چھپایا جا رہا ہے ۔ مہلوکین اور خمیوں کی حقیقی تعداد کو پوشیدہ رکھا جا رہا ہے ۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران ایک ہزار ہلاکتوں کا اندیشہ ظاہر کیا ہے ۔ دوسری جانب سماجوادی پارٹی کی رکن راجیہ سبھا جیہ بچن نے الزام عائد کیا کہ کچھ نعشوں کو گنگا میں بہا دیا گیا ہے ۔ اسی طرح کئی گوشے اور بھی الزامات عائد کر رہے ہیں اور یہ شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ مہا کمبھ میں پیش آئے حادثہ کی سچائی کو چھپایا جا رہا ہے اور حقیقی اعداد و شمار حکومت کی جانب سے جاری نہیں کئے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس بھی جاری ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مہا کمبھ کے حادثہ پر ایوان میں مباحث کروائے جائیں۔ حکومت کی جانب سے بیان دیا جائے ۔ حکومت ایسا کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی ۔ اب بی جے پی کی ایک رکن پارلیمنٹ و اداکارہ ہیما مالینی نے ایک بیان دیتے ہوئے تنازعہ پیدا کردیا ہے کہ یہ بھگدڑ کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے ۔ یہ معمولی بات ہے ۔ اگر واقعی مان لیا جائے کہ 30 اموات ہی ہوئی ہیں تب بھی یہ معمولی بات نہیں ہوسکتی ۔
جس وقت تک حادثہ پیش نہیں آیا تھا اس وقت تک بی جے پی کے کچھ قائدین اور گودی میڈیا کے کچھ کارندوں کی جانب سے اس مہا کمبھ کے انعقاد کو آئندہ یو پی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا جا رہا تھا اور حکومتوں کی تعریف کے پل باندھے جا رہے تھے ۔ جس وقت سے حادثہ پیش آیا ہے اس وقت سے نہ بی جے پی کے قائدین اس کا کوئی تذکرہ کرتے نظر آ رہے ہیں اور رنہ ہی گودی میڈیا میںاس مسئلہ پر کوئی مباحث ہو رہے ہیں۔ کوئی اظہار خیال کرتا بھی ہے تو اسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حکومت کے دفاع کیلئے سارا گودی میڈیا سرگرم ہوگیا ہے ۔ ایسے میں ملک کے عوام میں کئی طرح کے سوالات پائے جاتے ہیں۔ لوگ یہ حقیقت جاننا چاہتے ہیں کہ واقعی مہا کمبھ بھگدڑ میں ہوا کیا ہے ۔ کتنی اموات ہوئی ہیں اور کتنے لوگ زخمی ہیں اور کتنے ایسے ہیں جن کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ نہیںچل سکا ہے ۔ چونکہ مہا کمبھ ایک مذہبی پروگرام ہے ایسے میں عوام کی دلچسپی اور تجسس فطری طور پر اور بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ ایسے میں مرکزی حکومت اور اترپردیش حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس سارے واقعہ کی تفصیلات کو عوام میں پیش کیا جائے ۔ پوری ذمہ داری سے ایک بیان دیا جائے اور ملک کے عوام کے ذہنوںمیں جو سوال پنپ رہے ہیں ان کا جواب دیا جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ اس بھگدڑ میںکتنی اموات ہوئی ہیں۔ کتنے زخمی ہوئے ہیں ور کتنے لاپتہ پائے گئے ہیں۔ حکومت نے ابھی تک یہ وضاحت نہیںکی ہے ۔
چونکہ انتظامات کی ذمہ داری حکومت کی تھی اور بی جے پی اور اس کے قائدین مہا کمبھ کے انعقاد ک سہرا اپنے سر باندھ رہے تھے جیسے یہ پہلی مرتبہ مہا کمبھ ہوا ہو اس لئے اب حکومت اور بی جے پی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مہا کمبھ بھگدڑ کی سچائی کو عوام کے سامنے لائے ۔ان کی بے چینی کو دور کیا جائے اور جو سوالات اپوزیشن کی جانب سے بھی پوچھے جا رہے ہیں ان کا جواب دیتے ہوئے واضح اعداد و شمار پیش کئے جائیں۔ اس مہا کمبھ کے انعقاد سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں ترک کرتے ہوئے ساری تفصیلات اور سچائی کو ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنے میں حکومت کو عار محسوس نہیںکرنی چاہئے ۔