مہنگائی کے خلاف اپوزیشن احتجاج

   

ملک بھر میں مہنگائی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںہے ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مہنگائی کو قبول کرنے سے گریز کیا جا رہاہے اور سب کچھ ٹھیک ہے کا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی اپنی حدوں کو چھونے لگی ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ خود حکومت کے اعداد و شمار سے مہنگائی کا پتہ چلتا ہے لیکن حکومت اپنے ہی اعداد و شمار کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے اور ہمارے زر خرید میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس بھی اس جانب عوام کی توجہ ہونے کا موقع نہیں دے رہے ہیں۔ وہ صرف اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور فرار اختیار کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اب نیوز اینکرس کی بجائے حکومت کے کارندے بن گئے ہیں اور حکومت کی ساکھ کو بچانے کیلئے رات دن ایک کر رہے ہیںا ور خوشامد پسندی اور غلامی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مہنگائی کی صورتحال ماضی میں بھی پیدا ہوئی تھی جس اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ دارالحکومت دہلی میں صرف پیاز مہنگی ہونے کے نتیجہ میں شیلا ڈکشت کی قیادت میں کانگریس کوکامیابی ملی تھی او ر بی جے پی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ماضی میں یہ روایت رہی تھی جب کبھی مہنگائی عروج پر پہونچتی حکومت اس کا اعتراف بھی کرتے اور کچھ اقدامات مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کئے بھی جاتے تاہم وہ بے نتیجہ بھی ہوا کرتے تھے ۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس مسئلہ پر احتجاج کیا جاتا ۔ پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ اٹھایا جاتا۔ حکومت کے ساتھ مباحث کئے جاتے ۔ حکومت سے سوال پوچھے جاتے اور پارلیمنٹ کے باہر بھی ملک بھر میں سڑکوں پر اتر کر احتجاج درج کروایا جاتا ۔ ملک کی تقریبا سبھی ریاستوں میں اور تقریبا تمام بڑے شہروں میں یہ احتجاج کیا جاتا ۔ حکومت اس احتجاج کو بھی جھیلتی لیکن احتجاج کو کچلنے اور ختم کرنے کیلئے طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا اور نہ کوئی گرفتاریاں کی جاتیں۔
جب صورتحال بگڑتی اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوتا تو کچھ کارروائی ضرور کی جاتی لیکن حقیقت سے بالکل انکار کبھی نہیں کیا گیا ۔ ماضی میںاٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی بی جے پی حکومت میں بھی مہنگائی ہوئی تھی اور حکومت اور اس کے ذمہ داروں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف وجوہات بتائی تھیں ۔ حقیقت سے صریح انکار نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ملک کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس طرح اپوزیشن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے اور عوامی مسائل پر حکومت کو توجہ دلانے کا موقع دستیاب ہوتا تھا ۔ یہ ہماری جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ اپوزیشن اقتدار میں نہ رہتے ہوئے بھی حکومت پر اثرانداز ہوا کرتی تھی تاہم موجودہ صورتحال میں حکومت کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ کسی کا وجود بردشات نہیں کیا جا رہا ہے ۔خاص طور پر حکومت کی مخالفت کرنے والی آوازوں کو پوری طاقت سے کچلنے کی حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن اگر ایوان میں مباحث کیلئے اصرار کرتی ہے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا ہے ۔ کسی رکن کے سوال کا جواب دینا حکومت ضروری نہیں سمجھتی ۔ ایوان کے باہر اگر احتجاج کیا جاتا ہے تو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے اسے روکا جاتا ہے ۔ احتجاج کی قیادت کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے ۔ اپوزیشن کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ طاقت کا استعمال عام ہوگیا ہے اور اس کے ذریعہ کسی بھی صورتحال کو دبانے کچلنے کی حکومت عملی پر عمل ہو رہا ہے ۔
حکومت کو اس حقیقت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ آج ملک میں مہنگائی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے ۔ ہر شئے عوام کی پہونچ اور رسائی سے باہر ہوتی جا رہی ہے ۔ روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی خریدی بھی عوام کیلئے مشکل ہو رہی ہے ۔ دودھ اور ادویات کا حصول تک مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسے میں حکومت کو صورتحال کو قبول کرنے اور اس کے تدارک کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن کو بھی اس کے موقف کو پیش کرنے اورعوامی مسائل پر احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے اور اس حق کو دبانے کچلنے سے حکومت کو گریز کرنا چاہئے ۔ عوامی مسائل پر بھی اگر طاقت کا استعمال کیا جائے پھر عوام بھی اپنی طاقت دکھا سکتے ہیں۔