میانمار میں تشدد جنوبی ایشیاء کو غیر مستحکم کر سکتا ہے: اقوام متحدہ

   

نیویارک: اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ نے میانمار کی حکمراں عسکری قیادت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی جنتا اپوزیشن کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے چھ جولائی منگل کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا کہ میانمار میں بڑھتا ہوا تشدد مکمل خانہ جنگی میں تبدیل ہو سکتا ہے اور اس سے جنوبی ایشیا کے ایک وسیع خطے کو غیر مستحکم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔کمشنر مشیل بیچلیٹ نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کونسل کو بتایا، ”پورے ملک میں تشدد اور مصائب کے سبب پائیدار ترقی کو تباہ کن خطرات لاحق ہیں اور اس سے ریاست کی ناکامی یا پھر وسیع تر خانہ جنگی کے خدشے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ان کا مزید کہنا تھاکہ بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں ہونے والے تباہ کن واقعات بڑے پیمانے پر عدم تحفظ کی فضا پیدا کر رہے، اور اس کے اثرات خطے کے دیگر وسیع تر علاقوں پر مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔اس برس یکم فروری کو میانمار کی فوج نے سویلین حکومت سے بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور حکمراں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی سربراہ آنگ سان سوچی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد سے فوج کے سربراہ من انگ ہلینگ ہی ملک کے سربراہ ہیں۔اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ کا کہنا تھا کہ بغاوت کے بعد سے ہی فوج نے شہری آبادی پر منظم طریقے سے وسیع پیمانے پر حملہ جاری رکھا ہے۔ فوجی جنتا نے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے خلاف بھی پرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔