دو ماہ قبل جموں کشمیر گورنر نے ریاستی اسمبلی کوڈرامائی انداز میں تحلیل کردیا جس میں کشمیر کی قدیم اور بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر ان اور ان کے مخالف جموں اینڈ کشمیر پیپلز کانفرنس کے متوفی چیرمن اور علیحدگی پسند لیڈر کے بیٹے سجاد لون اس میں شامل تھے۔
ٹائمز آف انڈیا کی ٹیکو سنگھ نے ان سے دہلی میں ملاقات کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کیوں وادی کی متضاد سیاست میں ان کے نام سے خوف پایاجاتا ہے۔ اس بات چیت کے کچھ اقتباسات یہاں پر پیش ہیں۔
جموں کشمیر میں حکومت بنانے کے متعلق آپ کی جانب سے تعداد کی موجودگی کا دعوی پیش کئے جانے کے بعد جموں او رکشمیر میں روایتی دشمن این سی اور پی ڈی پی دونوں ایک ساتھ آگئے ۔ مگر جموں او رکشمیر تحلیل کردی گئی۔ ایسا کیاہوا؟۔
اس تمام ڈرامہ میں خود ساختہ روایتی حریف پی ڈی پی او راین سی دونوں ساتھ آگئے ۔ مگر ان کے نظریات یکساں ہیں وہ یہ ہے کہ لچکدار اقتدار کا شیئر اور شریفوں کے کلب میں کسی نئے داخلہ کو دور رکھنا۔وہ دشمن جو ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہراتے رہے او رآسانی کے ساتھ سب کچھ بھول کر اقتدار حاصل کرنے کے سیاسی چھلانگ لگادی۔
جب محسوس ہوا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں تو دونو ں واپس پرانے دور میں چلے گئے اور ایک دوسرے پر الزامات کا کھیل شروع کردیا۔
پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میںآپ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہاتھوں کا کھلونا ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟۔
دونوں این سی اورپی ڈی پی بی جے پی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں عمر عبداللہ این ڈی اے کے دور میں پوسٹر بوائی اور مملکتی وزیر خارجہ رہے ہیں۔
خود مختاری کی قرارداد جب ریاستی اسمبلی نے منظور کرنے سے انکارکردیاتھا تب انہوں نے وہ استعفیٰ نہ دینے کی بات پر اڑے رہے۔ وہ بی جے پی سے اس وقت ہی دور ہوئے جب انہوں نے محسوس کیاکہ بی جے پی اپنے وعدوں کو پورا کرنے جس میں ان کے والد کو نائب صدرجمہوریہ ہند بنانے شامل تھا کو پورا کرنے میں غیر سنجیدہ دیکھائی دے رہی ہے۔اگر ایسا کیاجاتاتو عمر عبداللہ کی سیاسی صف بندی کا آج کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔
محبوبہ جی بی جے پی کی حمایت کے ساتھ چیف منسٹر تھیں اور جب تک وہ ساتھ تھیں تب تک ان کا کوئی نظریاتی اختلاف نہیں تھا۔اب جاکر انہیں بی جے پی سے علیحدگی کا احساس جاگا اور ’’ اپنے گناہوں‘‘ کے لئے وہ رنجیدگی ظاہرکررہی ہیں۔ان کے چہرے سے سب صاف ظاہر ہوجاتا ہے۔
ان کے اراکین قانون ساز کونسل او راجیہ سبھا ایم پیز ہیں جو بی جے پی کے ووٹ سے جیت کر ائے ہیں ‘کیاوہ اپنے گناہوں کی معافی میں انہیں استعفیٰ دلائیں گی۔ میں دعوی کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ چاہئے وہ بی جے پی رہے یاکوئی اور برسراقتدار پارٹی دونوں ہی اس کے ساتھ سیاسی چھلانگ لگانے میں ماہر ہیں۔
محبوبہ جی کی زیر قیادت کونسل آف منسٹرس میں جب میں منسٹر تھا۔ تھرڈ گریڈ کی بالی ووڈ فلم میں و ہ ڈائیلاگ کچھ اسطرح بولتی ہیں’’ اتحادی بننے کی تیاری حثییت ہے؟تیری اوقات ہے کہ اتحادی بننے کی ؟‘‘
۔یہ دور حکمرانی کی ڈکٹیٹر شپ کی طرح مجھے برانڈ کیا۔ان کا مقصدمیرا موروثی نام شائد مجھے شریف لوگوں میں شامل ہونے نہیں دیتا۔ ان کی طرح کے لوگ اور ان کے اندازے کے ساتھ صحیح موروثی نامٹ والے ہی ان کے اتحادی ہوسکتے ہیں