میری جیت ، تیری ہار

   

کرناٹک اسمبلی میں کانگریس ۔ جنتادل ایس اتحاد کو تحریک اعتماد میں صرف 6 ووٹوں سے شکست کو جمہوری اقدار کی پامالی قرار دیا جارہا ہے ۔ کرناٹک میں گذشتہ 14 ماہ سے چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی کی حکومت پر تلوار لٹکا کر رکھی گئی تھی ۔ ایک مستحکم حکومت کو گرانے کے لیے بی جے پی نے جس طریقہ کار کو اختیار کیا ہے اس کے سیاسی نقصانات بھی لاحق ہیں ۔ کرناٹک کی اس صورتحال نے انسداد انحراف قانون میں پائی جانے والی کئی خامیوں کو بھی آشکار کردیا ہے ۔ اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کرناٹک اسمبلی میں گذشتہ چار دن تک کئی مراحل طئے کئے گئے تھے اور کئی موڑ سامنے آئے تھے لیکن ایچ ڈی کمارا سوامی کو مجبوراً انحراف پسندی کی سیاست کے آگے بے بس ہونا پڑا ۔ اعتماد کے ووٹ میں کانگریس اور سیکولر جنتا دل کو 99 ووٹ ملے جب کہ اپوزیشن بی جے پی کو 105 ووٹ ڈالے گئے ۔ 9 ارکان اسمبلی کے علاوہ جنتادل ایس اور کانگریس کے 17 قائدین ووٹنگ سے غیر حاضر رہے ۔ اس ملک میں جب سے فرقہ پرستوں اور زعفرانی طاقتوں نے سیاسی غلبہ حاصل کرلیا ہے ہر جگہ اور ہر اسمبلی و قانون و دستوری اداروں پر اپنے تسلط کو بڑھا لیا ہے ۔ نتیجہ میں جمہوریت ، دیانتداری اور ایمانداری کو بالائے طاق رکھ کر سیاستدانوں نے انحراف کا بدترین مظاہرہ شروع کیا ہے ۔ کانگریس قائدین کو مرکز کی مودی حکومت کی سازشوں پر افسوس ہورہا ہے ۔ مرکزی حکومت ، کرناٹک کے گورنر اور حکومت مہاراشٹرا کے علاوہ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے کرناٹک کی ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا ۔ بی جے پی کو شروع سے ہی اپنی حکومت بنانے کی خواہش تھی اور اس خواہش کو ہر لحاظ سے پوری کرنے کی کوشش بھی کی جس میں آج کامیاب ہوئی ہے ۔

بی جے پی نے آپریشن کنول کے ذریعہ اپوزیشن کا صفایا شروع کردیا تھا اب ہر اپوزیشن کی حکومتوں کو بیدخل کرنے کی مہم پر ہے ۔ ایچ ڈی کمارا سوامی حکومت کو یہ شکست ان کے ہی ساتھیوں کی انحراف پسندی سے ہوئی ہے ۔ ایک گروپ نے اس ووٹنگ کو غیرجمہوری قرار دیا تو بی جے پی گروپ نے اسے جمہوریت کی کامیابی بتایا ۔ آخر جمہوریت کے معنی و تعریف بھی اب دو خانوں میں بانٹ دی گئی ہے ، جو غلط ہے۔ اس کو جمہوریت کی جیت قرار دیا جارہا ہے جو سچے ہے اسے جمہوریت کی ناکامی ثابت کیا گیا ہے ۔ بی جے پی کے ریاستی صدر بی ایس یدی یورپا نے گذشتہ سال ماہ مئی میں حلف لینے کے وقت 56 گھنٹوں کے اور چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفیٰ دیا تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے کمارا سوامی حکومت کو گرانے کی 7 مرتبہ کوششیں کی تھی ۔ اب ان کی مرضی کے مطابق نتائج آئے ہیں ۔ 224 رکنی کرناٹک اسمبلی میں اب یدی یورپا کو 113 ارکان کی تعداد کی تائید ثابت کرنی ہوگی ۔ ان کے لیے بھی یہ آزمائش آسان نہیں ہے ۔ اگر چند دن بعد انہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہونا پڑے جیسے کہ آج کمارا سوامی حکومت کو ہوا ہے تو پھر وسط مدتی انتخابات کروانے پڑیں گے ۔ اگر کرناٹک میں وسط مدتی انتخابات ہوتے ہیں تو پھر کرناٹک کے عوام ہی بی جے پی کو سبق سکھائیں گے ۔ کیوں کہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے جس طرح سے دھاندلیوں کے ذریعہ کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس کا جواب کرناٹک کے عوام ہی اپنے ووٹ کے ذریعہ دیں گے ۔ کرناٹک میں عوام کی بڑی تعداد کو بی جے پی کی سیاسی حرکتوں سے نفرت ہے لیکن جو طاقت بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کے ذریعہ اقتدار تک پہنچتی ہے اس کا خاتمہ بھی خیر سے نہیں ہوتا ۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کے طاقتور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر ریاست میں اپنا سیاسی طاقت کا سکہ چلانے میں کامیاب ہوگی ۔ آج بی جے پی نے جو کھیل کھیلا ہے وہی کھیل کانگریس اور جنتادل ایس بھی کھیل سکتی ہیں ۔ اگر جمہوری سیاست میں یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر ہندوستانی سیاسی جمہوری ، دستوری اقدار کی پامالی کے بدترین واقعات رونما ہوتے رہیں گے ۔۔