میرے پاس عوام اور بنگلہ دیش کے مستقبل کیلئے منصوبہ ہے

,

   

Ferty9 Clinic

بی این پی کے کارگزار صدر طارق رحمن کا اعلان، ڈھاکہ میں عظیم الشان ریالی سے خطاب

ڈھاکہ ۔25 ؍ڈھاکہ۔ڈسمبر ( ایجنسیز )بنگلہ دیش میں کشیدہ حالات کے درمیان بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے کارگزار صدر طارق رحمن آج 17 سالوں بعد لندن سے ڈھاکہ پہنچے جہاں پارٹی کارکنان اور حامیوں نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں انھوں نے ڈھاکہ میں ایک تاریخی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا مستقبل اب نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ طارق رحمن نے اپنی تقریر میں نہ صرف شیخ حسینہ حکومت پر تنقید کی بلکہ عثمان ہادی کا بھی ذکر کیا جنھیں 12 دسمبر کو گولی مار دی گئی تھی۔لوگوں کی زبردست بھیڑ سے خطاب کرتے ہوئے طارق رحمن نے کہا کہ 15 سال کی حکومت (شیخ حسینہ کے دور) میں کوئی بھی کھل کر کچھ نہیں کہہ سکا۔ 2024 کی تحریک کے لیڈر عثمان ہادی کا قتل کر دیا گیا جو ایک بہادر لیڈر تھے۔انھوں نے مزید کہا کہ اس ملک کی قیادت اب نوجوان نسل سنبھالے گی۔ ہم بنگلہ دیش میں امن و استحکام چاہتے ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا آئی ہیو اے ڈریم‘ (میرے پاس ایک خواب ہے)۔ آج میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس ایک منصوبہ ہے۔ اپنے ملک کے لوگوں کیلئے اور اپنے ملک کے مستقبل کے لیے۔بی این پی لیڈر اور خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمن نے تاریخی اور عظیم الشان ریالی سے خطاب کا آغاز اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جن کے رحم و کرم سے اپنے مادر وطن میں واپس لوٹ سکا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی زمین ہے جسے 1971 میں بڑی قربانیوں کے بعد آزادی ملی تھی۔ اسی طرح کی ایک تحریک 2024 میں بھی دیکھنے کو ملی جب 5 اگست کو لوگوں نے ملک کی سالمیت کی حفاظت کیلئے کھڑے ہو کر جدوجہد کی۔انھوں نے عزم ظاہر کیا کہ آج وقت ہے کہ ہم سب متحد ہوں۔ مسلم، عیسائی، بودھ اور ہندو سبھی مل کر یہاں رہتے ہیں۔ ہمیں مل کر ایک نیا بنگلہ دیش بنانا ہے۔قابل ذکر ہے کہ طارق رحمن کی 17 سال بعد بنگلہ دیش واپسی کو پارٹی فروری 2026 کے عام انتخاب سے قبل ایک بڑی سیاسی سبقت تصور کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں طارق رحمن کی بنگلہ دیش میں انٹری کے دور رَس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ طلبا لیڈر شریف عثمان ہادی کی موت کے بعد سے بنگلہ دیش میں حالات زیادہ بگڑنے لگے ہیں اور عوام میں کارگزار یونس حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔