شیخ الاسلام محمد انواراﷲفاروقی علیہ الرحمہ
امتیوںکو حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے میلاد شریف کی خوشی ہوناایک ضروری اور مقتضائے فطرت ہے جس کا کو ئی منصف مزاج امتی انکار نہیں کرسکتا ۔ چونکہ اس خوشی سے زیادہ اورکوئی خوشی نہیںہوسکتی اس لئے کہ اس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ ہر وقت اس خوشی کا اثر دل میں لگا رہتا مگر مقتضائے طبیعت ہے کہ کیسی ہی نعمت ملے چند روز میں اس کی عادت ہوجاتی ہے اسی کو دیکھ لیجئے کہ سماعت ، بصارت وغیرہ کیسی نعمتیں ہیں مگر کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ ایسی نعمتیں ہمیںدی گئیں اور دینے والے کا شکر ہم پر واجب ہے ۔ ایسی نعمت کی تجدید مسرت کے لئے کسی یاد دلانے والی چیز کی ضرورت ہے اور وہ یاد دلانے والی چیززمانے کی معاودت ہے کیونکہ عام اصطلاح کے موافق ہر ہفتہ میں ہردن، ہر سال میں ہر مہینہ لوٹ کر آتاہے اور حق تعالیٰ نے بھی اس کا اعتبار فرمایا دیکھئے عید قربانی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کل واقعات کو پیش نظر رکھنے بلکہ اس کی حکایت کرنے کو فرض کردیا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی دوبارہ زندگی ہونے کی عید مسلمانوں میں قرار دی گئی ۔ ادنی تامل سے معلوم ہوسکتاہے کہ حج اور عید ذی الحجہ کی حقیقت بظاہر سوائے اس ایک واقعہ کی حکایت کے اور کچھ بھی نہیں جب اسمعیل علیہ السلام کی دوبارہ زندگی پر مسلمانوںکو ہر سال عید منانے کا حکم ہواتو حضرت ابوالعالم فخرانبیاء ورُسل مسجود خلائق صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پر امتیوں کو کس قد رعید یعنی خوشی منانا چاہئے۔عید میلاد مقرر نہ کرنے میں یہ سرمعلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ روز عید مقرر کیاجاتا تو ہرشخص ادائے فرض کے لحاظ سے مراسم عید بجالاتاجس طرح حج طوعاً وکرہاً کیا جاتاہے اور محب غیر محب میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اب اگر کوئی کہے کہ محبت میرے دل میں ہے تو ہم کہیں گے کہ اس کے ظاہر کرنے میں کون سی چیز مانع ہے ۔ اگروہ یہ کہے کہ تعین وقت بدعت ہے تو ہم کہیں گے کہ بدعت وہ ہے جس کی نظیر شرع میں نہ ملے اور یہاں نظیر موجود ہے یعنی قربانی ۔
{مقاصدالاسلام حصہ یازدہم ،ص ۱۰۵،۱۰۶}