’’میلاد نامہ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
میلاد نامے اور میلاد کی محفلوں کا اصل مقصد اُسوۂ حسنہ اور اتباعِ سنت کی دعوت دینا ہے اور اُس پر عمل کرنے کا شعور و جذبہ پیدا کرنا ہے ۔ ابنِ سعدؒ کی روایت ہے کہ رسول اللہ کی ﷺ کی والدہ نے فرمایا : ’’جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے مُلکِ شام کے محل روشن ہوگئے ‘‘۔ ولادت کی آپؐ کی والدہ نے جب حضرت عبدالمطلب کے پاس پوتے کی خوش خبری بھجوائی تو وہ خوشی خوشی تشریف لائے اور آپؐ کو خانۂ کعبہ لے جاکر اﷲ تعالیٰ سے دُعا کی ، اُس کا شکر ادا کیا اور آپؐ کا نام محمدؐ رکھا وہ کہ جس کی بار بار مدح کی جائے ۔ یہ نام ایک انقلابی قوت ہے ، اس نام سے ہماری زندگی کا بھرم قائم و دائم ہے اسی نام سے ایک قابل فخر اور لائق خلیفہ انسانی تمدن وجود میں آیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ فتح میں یہ حکم دیا وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ (اُن کی عزت کرو اور اُن کی تعظیم میں مبالغہ کرو ) علامہ اقبالؔ نے رسول اﷲ ﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کا یوں اظہار کیا ؎
شمع ہستی دہر میں روشن ہوئی
سیکھی بندوں نے ادائے خواجگی
جب آپؐ کی عمر بارہ سال دو مہینے دس دن کی ہوئی تو چچا ابوطالب آپؐ کو تجارت کے لئے ملک شام لے گئے ( ابن جوزی ) اور مقام بصرہ یہ قافلہ نے پڑاؤ ڈالا ۔ جرجس نامی ’’بحیرا راہب اپنے گرجا سے باہر نکلا اور قافلہ کے اندر آیا ۔ اُس نے رسول اﷲ کے اوصاف کی بناء پر پہچان لیا ۔ آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : ’’یہ سید العالمین ہیں اﷲ اُنھیں رحمت للعالمین بناکر بھیجے گا ‘‘ ۔ حضرت ابوطالب نے پوچھا : ’’آپ کو کیسے معلوم ؟‘’ راہب نے جواب دیا : ’’جب تم لوگ گھاٹی کے اُس جانب نمودار ہوئے کوئی بھی درخت اور پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لئے نہیں جھکا ۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔ پھر میں اُنھیں مُہرِ نبوت سے پہچانتا ہوں جو کندھے کے نیچے کری ( نرم ہڈی ) کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں ۔ اس کے بعد راہب نے حضرت ابو طالب سے کہا اُنھیں واپس بھیج دو ۔ تو حضرت ابوطالب نے چند غلاموں کی معیت میں آپؐ کو مکہ واپس بھیج دیا ۔ ( سیرۃ الشیخ عبداﷲ ، ابن ہشام ) نبی ؐ نبوت سے پہلے احوال صالحہ اور خصائل حمیدہ کے پیکر تھے جیسا کہ حضرت خدیجہؓ کی شہادت ہے ۔ آپؐ اپنی قوم میں سب سے زیادہ پاک نشین ، خیر میں سب سے زیادہ کریم ، راست گو اور پابند عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے ۔ درماندوں کا بوجھ اُٹھاتے تھے ۔ تہی دستوں کا بندوست فرماتے تھے ۔ مہمان کی میزبانی کرتے تھے مصائب حق میں مدد فرماتے تھے ۔ ( صحیح بخاری )
حقیقت یہ ہے کہ خالقِ کائنات کا تخلیقی شاہکار محمدؐ کی ذات اقدس ہے جس پر خود اُس کو ناز تھا ۔اے اﷲ اپنے محبوب نبیؐ کے صدقہ ہم سب سے راضی ہوجائے اور ہم سب کو آپؐ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ایک سچے اُمتِ محمدیؐ بالعمل بن جائیں ۔ ( آمین )